رفعت

( رِفْعَت )
{ رِف + عَت }
( عربی )

تفصیلات


رفع  رِفْعَت

عربی میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم رفع کی تانیت ہے اور بطور اسم ہی مستعمل ہے اردو میں اصل مفہوم اور ساخت کے ساتھ داخل ہوا۔ سب سے پہلے ١٨٠٥ء میں آرائشِ محفل" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : رِفْعَتیں [رِف + عَتیں + (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : رِفْعَتوں [رِف + عَتوں (و مجہول)]
١ - بلندی، اونچائی۔
 عزم میں میرے رفعتیں ان کی نگاہِ شوق کی کیا کوئی مجھ پہ راہ میں برقِ ستم گرائے گا      ( ١٩٨٣ء، حصارِ انا، ١٦٠ )
٢ - سطحِ بحر سے بلندی۔
"سطحِ سمندر سے زاویائی بلندی کو رفعت کہتے ہیں"      ( ١٩٨٤ء، جدید معاشی جغرافتہ، ١١٦ )
٣ - عروج، منزلت، برتری، ترقی، عالی مرتبگی، ارتقا۔
"اردو زبان اور شاعری کو ایک نٹا قالب اور نٹا آہنگ دیا اور ان کو وسعتوں اور رفعتوں سے ہمکنار کیا۔      ( ١٩٨٠ء، محمد تقی میر، ١١ )
  • اُونْچائی
  • بُلَنْدی
  • عُرُوْج
  • عَظْمَت
  • اَوْج
  • elevation
  • height
  • attitude;  exaltation;  promotion;  dignity
  • eminence
  • nobility