تہذیب

( تَہْذِیب )
{ تَہ (فتحہ ت مجہول) + ذِیب }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے اسم مشتق ہے ثلاثی مزیدفیہ کے باب تفصیل سے مصدر ہے اور اردو میں بطور حاصل مصدر ہے اردو میں عربی زبان سے ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا۔ اردو میں سب سے پہلے ١٨٤٦ء کو "تذکرۂ اہل دہلی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : تَہْذِیبیں [تَہ (فتحہ ت مجہول) + ذی + بیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : تَہْذِیبوں [تَہ (فتحہ ت مجہول) + ذی + بوں (و مجہول)]
١ - اصلاح کرنا، پاک کرنا، صفائی، آراستگی
 شاعری سے سربسر تہذیب قلب اس کو غم شائستگی درکار ہے      ( ١٩٦٥ء، غزلستان، ١١٩ )
٢ - ذہنی ترقی جو زندگی کے چلن میں کارفرماہو، سائستگی، ادب و تمیز۔
"تہذیب اور ثقافت کے معانی یک جا کر کے ان کے لیے ایک لفظ کلچر استعمال کیا ہے۔      ( ١٩٦٤ء، پاکستانی کلچر، ٤٨ )
٣ - طرز معاشرت، رہنے سہنے کا انداز، تمدن۔
"عرب تہذیب و تمدن سے کم آشنا تھے"      ( ١٩١٤ء، سیرۃ النبیۖ، ٢٠٥:٢ )
٤ - ترقی، بہتری۔
 ترے بغیر تہذیب کار ملک محال جہاں عروس ہے مشاطہ ہے تری تدبیر      ( ١٩٠٠ء، نظم دل افروز، ٢٠ )
٥ - کسی کتاب وغیرہ کی ترتیب، تدوین، درست کرنا
"اس کی تصنیفات کی تہذیب و ترتیب کی"      ( ١٩١٤ء، شبلی، مقالات، ٣٥:٥ )
٦ - [ تصوف ]  صفا و جلا (نفسی یا قلب کی)
"بعد ازآں علم الاخلاق اور تہذیب نفس اور صفائی دل پر متوجہ ہوا اور اس سے بہرۂ کامل حاصل کیا"      ( ١٩١٠ء، آزاد (محمد حسین)، نگارستان فارس، ٢٠٢ )
  • purifying;  adjusting
  • adorning;  correcting
  • amending;  correction
  • amendment
  • edification
  • refinement
  • polish