آغوش

( آغوش )
{ آ + غوش (واؤ مجہول) }
( فارسی )

تفصیلات


یہ اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے بطور اسم جامد مستعمل ہے۔ اردو زبان میں بھی اصلی حالت اور معنی کے ساتھ مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٧١٨ء میں آبرو کے 'قلمی نسخہ' میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث - واحد )
جمع   : آغوشیں [آ + غو (واؤ مجہول) + شیں (یائے مجہول)]
جمع استثنائی   : آغوشوں [آ + غو (واؤ مجہول) + شوں (واؤ مجہول)]
١ - گود، کولی، وہ حلقہ جو دونوں ہاتھ پھیلا کر کسی کو دبوچنے اور سینے سے چمٹانے میں بنتا ہے، وہ حلقہ جو کسی کو اٹھا کر اپنی بغل اور کوکھ سے لگانے اور سینے سے چمٹانے میں بنتا ہے۔
 مجھے آغوش مادر ہیں بھڑکتی آگ کے شعلے نہیں ہے فرش انگاروں کا کم پھولوں کے بستر سے      ( ١٩٢٩ء، مطلع الانوار، برق دہلوی، ٨٠ )
٢ - پہلو
 کوچہ محبوب میں جو جو پہنچ کر مر گئے ان کو آغوش پری آغوش مدفن ہو گیا      ( ١٨٨١ء، دیوان ماہ، عنایت علی، ٣٤ )
٣ - [ تعمیرات ]  چنائی میں دو اینٹوں یا پتھروں کے درمیان حلقہ نما خالی جگہ۔
"اس (بندش) میں کوشش کی جاتی ہے کہ آغوش یا گرفت کی ممکنہ مقدار انتہائی ہو۔"      ( ١٩٤٨ء، رسالہ رڑکی، چنائی، ٤ )
  • embrace
  • bosom