ساقی

( ساقی )
{ سا + قی }
( عربی )

تفصیلات


سقا  ساقی

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم فاعل ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٥٩ء کو "حزن اختر" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : ساقِیوں [سا + قِیوں (واؤ مجہول)]
١ - پانی پلانے پر مامور، سقہ۔
"ذکر کریم بخش آب کش یعنی ساقی و مخفف آں سقہ۔"      ( ١٨٥٩ء، حزن اختر، ٥١ )
٢ - شراب کے جام بھر کر دینے والا جو ادب میں روایۃً ایک مرغوب و مطلوب کردار کے طور پر مذکور ہوتا ہے۔
 پلا ساقی شراب ارغوانی ملے مجھ کو جو عمر جاودانی      ( ١٩٨٣ء، حصار انا، ٩٠ )
٣ - حقہ پلانے والا، گھر کے باہر اجرت پر حقہ پلانے والا آدمی، مغبچہ۔
"کہیں سقے کٹورا بجاتے۔ ساقی حقہ پلاتے۔"      ( ١٩٢٣ء، اہل محلہ اور نا اہل پڑوس، ٥ )
٤ - [ تصوف ]  فیاض مطلق یا مرشد، (مجازاً) نعمت یا حکمت و معرفت بخشنے والا۔
 ساقی بنے ہوئے ہیں وہ کوثر کا یہ مقام ہے      ( ١٩٨٥ء، رخت سفر، ٤٦ )
٥ - (مجازاً) معشوق، محبوب، صنم۔
 وہ مے کش ہوں فروغ مے سے خود گلزار بن جاؤں ہوائے گل فراق ساقی نا مہرباں تک ہے      ( ١٩٢٤ء، بانگِ درا، ١٠٦ )
  • one who gives to drink
  • cup-bearer;  (in India) one who gets ready and brings the huqqa