فارسی زبان سے اسم 'خانہ' کے ساتھ 'بدوش' بطور صفت لگایا ہے۔ 'بدوش' میں 'ب' حرف جار اور 'دوش' اسم ہے اس طرح یہ مرکب توصیفی بنتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٧٧٢ء کو "فغان، انتخاب دیوان" میں مستعمل ملتا ہے۔
١ - وہ شخص جس کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہ ہو، بے ٹھکانا، مارا مارا پھرنے والا، آوارہ، بنجارہ۔
"میں ایک مفلس قلاش، خانہ بدوش قمار باز تھا۔"
( ١٩٢٤ء، خونی بھید، ٣٧ )
٢ - وہ جگہ یا جتھا جو جنگلوں میں مارا مارا پھر کر زندگی گزارتا ہے اور جہاں کھانے پینے کی سہولت ہو وہاں خیمے اور چھپر ڈال کر عارضی طور پر سکونت پذیر ہو جاتا ہے، صحرا نورد بدّو۔
"کوریا کے اصل باشندے . مختلف قبائل میں منقسم تھے اور خانہ بدوشوں کی حیثیت سے تلاش معاش و خوراک میں مارے مارے پھرتے تھے۔"
( ١٩٨٣ء، کوریا کی کہانی، ٣٤ )
٣ - حشرات الارض اور پرندوں کا ایک گروہ جو نقل مکانی کرتا ہے۔
"اس فیصلے کی ابتدائی ضرر رساں اقسام کی نمائندگی . خانہ بدوش تیتریوں کو نوع پور تھیٹر یا ڈسپار کرتی ہیں۔"
( ١٩٧١ء، حشریات، ١٠٠ )