آوارہ

( آوارَہ )
{ آ + وا + رَہ }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان کے لفظ 'آوارہ' کے ساتھ 'ہ' بطور لاحقہ صفت لگائی گئی ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٤٩ء کو "خاورنامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
جمع   : آوارْگان [آ + وار + گان]
١ - سرگرداں، پریشاں۔
 لیے کمر پہ گناہوں کا اپنے پشتارہ فضا میں جس کی ابھی تک ہے روح آوارہ    ( ١٩٥٤ء، مراثی نسیم، ٢١٧:٣ )
٢ - پراگندہ، منتشر، تتربتر، بکھرا ہوا۔
"اس کا مقصد چیمبر کو آوارہ (Stray) اور پراگندہ شعاعوں سے محفوظ رکھنا ہے۔"    ( ١٩٧٠ء، جدید طبیعات، ٣٠٨ )
٣ - تباہ، برباد، ضائع
 سامان عیش سب کا سب آوارہ ہو گیا نوبت سحر کی کوچ کا نقارہ ہو گیا    ( ١٩١٨ء، سحر، سراج میر خاں، بیاض سحر، ٧٢ )
٤ - لچا، بدچلن، بداطوار، اوباش۔
"دیکھتی ہو اس آوارہ بدمعاش کو۔"      ( ١٩٦١ء، ہالہ، اے۔آر خاتون )
٥ - خاندان، گھر یا وطن وغیرہ سے جدا یا دور افتادہ، نگھرا، خانہ بدوش۔
 جس طرح صحرائے افریقہ کا آوارہ کوئی یا عرب کی منزلوں کا جس طرح مارا کوئی      ( ١٩١٠ء، جذبات نادر، ١٥٤ )
٦ - غیر آباد، خالی، ویران
"ایک اور دالان، بے چھت سہہ درہ آوارہ پڑا ہے۔"      ( ١٨٦٤ء، تحقیقات چشتی، ٦٧٤ )
٧ - سب سے بچھڑ کر، اکیلا، تن تنہا۔
 یکٹ جائے گا شہرکو شاہ کیوں ختم بن چلے گا سو آوارہ کیوں      ( ١٦٨٣ء، مثنوی رضوان شاہ و روح افزاء، ٦٠ )
١ - آوارہ پَڑے پھرنا
'ایسے لوگوں کی آنکھوں میں ذلیل ہیں جن کے آبا و اجداد اس اس وقت جنگلوں میں آوارہ پڑے پھرتے تھے۔"      ( ١٨٩٩ء، سرسید، مضامین تہذیب الاخلاق، ٢٣ )
  • separated from one's family;  without house and home;  wandering;  astray;  abandoned
  • lost;  dissolute