فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'خام' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت و اسمیت لگانے سے 'خامی' بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔
وہ مہ ہے بدر جس کو ہما تمامی ثمر کس کام کا جس میں ہے خامی
( ١٨٧٢ء، خامد خاتم النبین، ٢٠٤ )
٢ - نقص، عیب، برائی۔
"رات آپ نے مری تقریر سنی ! . کی آپ ہندوستان میں سیکولرازم کی تیسری خامی کی دوسری مشق پر تھے کہ مجھے نیند آ گئی۔"
( ١٩٨٦ء، تکبیر، کراچی، ٢٤، جولائی، ٤٧ )
٣ - غلطی۔
"آخر میں قارئین کرام سے . گزارش ہے کہ کتاب کے مطالعہ کے وقت جو فرو گذاشتیں نظر آئیں ان سے . آگاہ فرمائیں تاکہ آئندہ اشاعت میں ان خامیوں کا ازالہ کیا جائے۔"
( ١٩٤٧ء، جراحیات زاہراوی، ٥ )
٤ - کمی۔
"خامیوں کو دور کرنے کے لیے فلپ فلاپ میں چند اضافے کیے جاتے ہیں۔"
( ١٩٨٤ء، ماڈل کمپیوٹر بنائیے، ٨٩ )
٥ - ناتجربہ کاری، اناڑی پن۔
اے آرزو اپنی خطا کیا، تھی یہ سوزِ محبت کی خامی جب شمع بناتے بن نہ پڑی پروانہ بنا کر چھوڑ دیا
( ١٩٥١ء، آرزو لکھنوی، سازحیات، ١٣ )
٦ - نادانی، بے وقوفی۔
وہ موسٰی کی تمناتں کی خامی وہ اس کی شرح حرفِ لن ترانی
( ١٩٤٧ء، نوائے دل، ٣٤٦ )
٧ - کمزوری۔
"اختر شیرانی جو نئی شاعری کا شہریار تھا جس میں بشری خامیاں چاہے بے شمار ہوں لیکن جس کے متعلق کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ مکتبر تھا۔"
( ١٩٨٣ء، نایاب ہیں ہم، ٧٣ )