خبردار

( خَبَرْدار )
{ خَبَر + دار }

تفصیلات


عربی زبان سے ماخوذ اسم 'خبر' کے ساتھ فارسی مصدر 'داشتن' سے فعل امر 'دار' لگانے سے مرکب 'خبردار' بنا۔ اردو میں بطور صفت اور گا ہے بطور حرف فجائید مستعمل ہے۔ ١٢٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

حرف فجائیہ
١ - کسی کو کسی امر سے متنبہ کرنے کے لیے مستعمل۔
"خبردار جو تم میں سے کسی نے صاحب حال کو بزرگ کہا یا صاحب کرامت کہا . خبردار!"      ( ١٩٨١ء، سفر در سفر، ٢٦٢ )
٢ - تاکیلا نفی کے لیے، ہرگز، مطلقاً، زینہار۔
"آج ہی کے دن تم سے آکر ملوں گی، خبردار کہیں جانا نہیں"      ( ١٩٥٦ء، بیگمات شاہان اودھ، ٨ )
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
١ - خبر دینے والا، مخبر، جاسوس۔
"بادشاہ کو ان کے حسن و جمال پر گمان ہوتا ہے کہ شاید ان میں پد ماوت بھی ہو مگر خبر دار خبر دیتا ہے کہ ان میں پد ماوت کہاں"      ( ١٩٣٩ء، افسانہ پدمنی، ١٧ )
٢ - واقف کار، آگاہ۔
 احمق پہ چل سکے گا نہ جادو ترا کوئی وہ تیری فطرتوں سے خبردار ہو چکا    ( ١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٥ )
٣ - ہمدرد، خیر گیری لینے والا، حال پوچھنے والا، واقف حال؛ معالج۔
 وہ عورتوں کا مدد گار و پردہ دار اٹھا وہ بیکسوں کا خبردار و جاں نثار اٹھا    ( ١٩٣٦ء، احسن الکلام، ٢٥٠ )
٤ - چوکس، چوکنا، ہشیار۔
 بیخود بنا دیا کہ خبردار کر دیا کیا سحر تو نے اے نگریار کر دیا      ( ١٩٤١ء، صد رنگ، ٥٦ )
  • have a care! Take care! Be careful! Be on (your) guard!