سانس

( سانْس )
{ سانْس (ن غنہ) }
( پراکرت )

تفصیلات


اصلاً پراکرت زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں پراکرت سے ماخوذ ہے اصل معنی اور اصل حالت میں عربی رسم الخط میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٦٥ء کو "جواہر اسراراللہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر، مؤنث - واحد )
جمع   : سانْسیں [ساں + سیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : سانْسوں [ساں + سوں (واؤ مجہول)]
١ - ہوا جو جاندار کے ناک یا منھ کی راہ سے پھیپھڑے کے اندر جاتی اور باہر آتی ہے۔
 ہر سانس کھٹکتا ہی رہا سینے میں پیہم گزرا نہ تری یاد سے خالی کوئی دم بھی      ( ١٩٠٥ء، گفتار بے خود، ٢٣٢ )
٢ - بھاپ، پھونک، معمولی حرارت۔
"چاول بھی وہ کہ ایک ایک دانہ بلور کا تراشا، دو سانسوں میں دم پہ آیا، ایک ایک دانہ دو دو انگل کا۔"      ( ١٩٥٤ء، اپنی موج میں، ٨٤ )
٣ - [ مجازا ]  لمحہ، مختصر وقفہ (چھ سانس کے برابر)۔
"ایک سانس میں کچھ اور دوسری . میں کچھ۔"      ( ١٩٠٦ء، الحقوق و الفرائض، ٣٤:١ )
٤ - شگاف، جہاں سے ہوا کا گزر ہو۔
"حقے کی نے میں سانس پڑ گئی ہے۔"      ( ١٩٢٩ء، نوراللغات، ١٨٩:٣ )
٥ - روح، آتما۔
"اس بھجن میں ہے کہ روح (سانس) انسان بظاہر غیر شعوری ہے، بلائی جا سکتی ہے۔"      ( ١٩٤٥ء، تاریخ ہندی فلسفہ (ترجمہ)، ٣٧:١ )
٦ - [ آتش بازی ]  آتش بازی کا زور یا عملی قوت، دم۔ (ماخوذ : اصطلاحات پیشہ وراں)
١ - سانْس اٹکنا
سانس کا رک جانا، سانس کی آمد و شد بند ہو جانا، دم گھٹنا، جاں بلب ہونا۔ اس شکار افگن نے اف کرنے کی بھی مہلت نہ دی سانس مثل تیر اٹکی سینۂ نخپیر میں      ( ١٨٣٦ء، ریاض البحر، ١٤٩ )
٢ - سانس (پھولنا | پھول چکنا)
تنفس تیز ہونا، ہانپنا، بے اختیار جلد جلد سانس لینا، جلدی جلدی چلنے، اوپر چڑھنے، خواہ بوجھ اٹھانے سے سانس قابو میں نہ رہنا۔"ادب کے میدان میں عظمتوں کی تتلیوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے بہت سے لوگوں کے پاءوں زخمی ہوگئے ہیں سانس پھول چکے ہیں۔"      ( ١٩٨٨ء، قومی زبان، کراچی، جولائی، ٣٣ )
٣ - سانس گھٹنا
دم گھٹنا، سانس لینا، مشکل ہونا۔"سنگترے کی پھانکوں کی طرح جڑی ہوئی سواریوں کا سانس گھٹنے لگا۔"      ( ١٩٨٧ء، فنون، لاہور، نومبر، دسمبر، ٤٩٧ )
  • breath
  • respiration;  sigh;  a unit of time (equal to six breathings);  a crack or fissure (which lets in air)