پھونک

( پُھونْک )
{ پُھونْک (ن مغنونہ) }
( ہندی )

تفصیلات


پُھونک  پُھونْک

ہندی سے اردو میں اصل ساخت اور مفہوم کے ساتھ داخل ہوا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٨٦٦ء کو "تہذیب الایمان" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - [ عوام ]  ہلکا، ورق سا ہلکا؛ ہلکا زیور؛ کاجو بھوجو چیز۔ (فرہنگِ آصفیہ؛ نوراللغات)
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : پُھونْکیں [پُھوں + کیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : پُھونْکوں [پُھوں + کوں (و مجہول)]
١ - منھ سے بزور نکالی ہوئی ہوا، سانس؛ پھونکنے کی کیفیت۔
"وہ اپنی پھونک سے خدا کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں۔"      ( ١٨٧٩ء، تاریخِ ہندوستان، ٥، ٨٢٧ )
٢ - دعا، دم، منتر۔
"انکار کی پھونک دین و مذہب کی تمام بندشوں کو توڑتاڑ کر برابر کر دے۔"      ( ١٩٠٦ء، الحقوق و الفرائض، ٢٠:١ )
٣ - حقے کا کش۔
"لاکھ لاکھ کہا کہ توا آ رہا ہے دو پھونک پیتے جاؤ۔"      ( ١٩٢٦ء، نوراللغات، ١٦٦:٢ )
  • مَنْتر
  • اَفْسوں