تیور

( تیوَر )
{ تے + وَر }
( سنسکرت )

تفصیلات


تمیرن  تیوَر

سنسکرت زبان سے ماخوذ ہے۔ لفظ 'تمیرن' سے اخذ کیا گیا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٨١٨ء کو اظفری کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - آنکھوں کا نور، روشنی، بینائی۔
 نرگس میں کیا ہے جو تری آنکھوں سے دیں مثال تیور نہیں ہے نور نہیں ہے نظر نہیں ہے      ( ١٨٩٦ء، تجلیات عشق، ٢١٥ )
٢ - نظر، چتون، صورت اور نگاہ کا انداز۔
"ان کے آتے ہی آتے ابا جان نے ان کو دکھا کے مجھ پر کڑے تیور ڈالے۔"      ( ١٩٢٤ء، اختری بیگم، ٤٥ )
٣ - آنکھوں کے سامنے اندھیرا یا سر میں چکر جو کسی صدمے یا گرمی کی وجہ سے ظہور میں آئے۔
 ناتوانی کا برا ہو ہم ادھر کو جو چلے تیور آ آ گئے گر گر پڑے جایا نہ گیا      ( ١٨٣٦ء، ریاض البحر، ٣٥ )
٤ - [ مجازا ]  طرز، طریقہ، ڈھنگ۔
"نئی نئی عمارتیں تعمیر ہوئیں . فوارے اور نہریں نئے تیور سے زمین کے سینے پر رواں ہوئیں۔"      ( ١٩٧٥ء، تاریخ ادب اردو، ٣٨٣:١ )
  • darkness before the eyes
  • swimming in the head
  • giddiness
  • vertigo
  • fainting
  • peculiar expression or appearance of the eyes;  look
  • aspect
  • expression
  • countenance;  the brown