اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - آنکھوں کا نور، روشنی، بینائی۔
نرگس میں کیا ہے جو تری آنکھوں سے دیں مثال تیور نہیں ہے نور نہیں ہے نظر نہیں ہے
( ١٨٩٦ء، تجلیات عشق، ٢١٥ )
٢ - نظر، چتون، صورت اور نگاہ کا انداز۔
"ان کے آتے ہی آتے ابا جان نے ان کو دکھا کے مجھ پر کڑے تیور ڈالے۔"
( ١٩٢٤ء، اختری بیگم، ٤٥ )
٣ - آنکھوں کے سامنے اندھیرا یا سر میں چکر جو کسی صدمے یا گرمی کی وجہ سے ظہور میں آئے۔
ناتوانی کا برا ہو ہم ادھر کو جو چلے تیور آ آ گئے گر گر پڑے جایا نہ گیا
( ١٨٣٦ء، ریاض البحر، ٣٥ )
٤ - [ مجازا ] طرز، طریقہ، ڈھنگ۔
"نئی نئی عمارتیں تعمیر ہوئیں . فوارے اور نہریں نئے تیور سے زمین کے سینے پر رواں ہوئیں۔"
( ١٩٧٥ء، تاریخ ادب اردو، ٣٨٣:١ )