فعل متعدی
١ - روکنا، باز رکھنا، باندھنا، بڑھنے نہ دینا۔
"بمبئی میں جیسے گیٹ آف انڈیا، جہاں سمندر کو تھاما ہے۔"
( ١٩٦٠ء،رادھا اور رنگ محل، ٣٠ )
٢ - روکے رکھنا، ٹھیرانا، حرکت سے باز رکھنا، جانے نہ دینا، روک لینا، باندھنا۔
"میں نے مولوی عمر خاں کو تمھارے مع الخیر آنے تک تھام لیا۔"
( ١٩١٤ء، حالی، مکتوبات، ٢٨٤:٢ )
٣ - سنبھالنا، قابو میں رکھنا یا لانا؛ ضبط و تحمل سے کام لینا۔
"حمیدہ بیگم بانو کے غصے کی آگ گو اب پوری بھڑک چکی تھی مگر پھر بھی وہ اپنے کو ایسا ہی تھامے ہوئے تھی۔"
( ١٩٢٨ء، حیرت دہلوی، سوانح عمری امیر تیمور، ١٩ )
٤ - سہارا دے کر سنبھالنا یا روکنا، آڑ لگانا، ٹیکن لگانا۔
لے چلی مستانہ چال اپنا ثبات تھامنا ہم اے پری پیکر چلے
( ١٩٠٣ء، نظم نگاریں، ١٤٨ )
٥ - ہاتھ میں لینا، گرفت میں لانا۔
"ان لوگوں کی قابلیت کی داد دیجیے جو ایسے لائق لوگوں کی باگ تھامے ہوئے ہیں۔"
( ١٩٤٧ء، فرحت، مضامین، ٣٥:٣ )
٦ - گرفتار کرنا، پکڑنا۔
وہ لیے جاتا ہے دل اس کو پکڑنا، تھامنا دیکھنا لینا وہ بت اللہ کا گھر لے چلا
( ١٨٩٥ء، راسخ دہلوی، ٤٧ )
٧ - مضبوطی سے پکڑنا۔
"سلائی کو بائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور انگشت کلمہ میں تھامو۔"
( ١٩٣٥ء، اونی کام سلائیوں سے، ٨ )
٨ - حفاظت کرنا، نگہداشت کرنا، رکھوالی کرنا، سنبھال کر رکھنا، بچانا۔
وہ مردود جھپٹا مجھے تھامنا چھری سے ہوا کیا برا سامنا
( ١٩١٠ء، قاسم و زہرہ، ٣٦ )
٩ - (ہاتھ سے) جانے نہ دینا؛ آسرا دینا، پشتی کرنا؛ مدد کرنا؛ دیکھ بھال کرنا۔
"میں عورت میرا بھائی مرد خرد سال تھا گھر کون تھامتا۔"
( ١٨٩٠ء، فسانۂ دلفریب، ٥٥ )
١٠ - سائی لینا، بیعانہ لینا۔
١١ - سہارا دینا۔
اب کون ہے غربت میں مرا تھامنے والا دل کا کوئی ارمان بھی تم سے نہ نکالا
( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ١٠٠:١ )