سبحان

( سُبْحان )
{ سُب + حان }
( عربی )

تفصیلات


سبح  سُبْحان

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - پاک، مبرا، آزاد، منزہ، مراد، ذات الٰہی۔
 امیر اس وقت جو کچھ مانگنا ہو مانگ لے تو بھی حبیب ایزد سبحان رسول اللہ آتے ہیں      ( ١٨٧٢ء، محامد خاتم النبین، ٨٦ )
١ - سبحان اللہ
(عربی فقرہ اردو میں مستعمل) اللہ کی ذات منزہ اور پاک ہے۔ آنکھوں سے چھپے نگاہ سبحان اللہ دل سے مخفی ہو آہ سبحان اللہ      ( ١٩٤٧ء، رباعیات امجد، ٥٠:٢ )
کسی کی تعریف اور خوبی بیان کرنے پر موقع پر۔"ادھر جو گئے تو دیکھ کر بے اختیار منھ سے سبحان اللہ ہی نکلا۔"      ( ١٩٨٦ء، انصاف، ٢٩ )
بطور طنزو تضحیک۔"صاحب سبحان اللہ کس تکلف سے شراب لاتے ہو۔"      ( ١٩٠٢ء، طلسم نوخیز جمشیدی، ٩٩:٣ )
(استعجاب) حیرت کے اظہار کے لیے۔ ہم سے دیوانے رہیں شہر میں سبحان اللہ دشت میں قیس رہے کوہ میں فریاد رہے      ( ١٨١٠ء، میر، کلیات، ٣١٢ )
ٹھیک ہے، بہتر ہے، درست ہے۔"اگر اخلاقی اوغر مذہبی ہوں تو سبحان اللہ بلکہ جزاک اللہ۔"      ( ١٩٤٨ء، پر پرواز، ١٨٦ )
  • Magnifying
  • glorifying
  • or praising (God)