خسرو

( خُسْرَو )
{ خُس + رَو }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے۔ فارسی سے اردو میں داخل ہوا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : خُسْرَوؤں [خُس +رَو (ولین) + اوں (و مجہول)]
١ - سیاوش بن کیکاوس کے بیٹے کا نام جو کیا نیوں میں بہت بڑا صاحبِ اقبال بادشاہ گزرا ہے۔
 دماغ ہے یہ ترے میکدے کے فتوں کو جو آئین خسرو جمشید بھی کریں نہ خیال      ( ١٨٨١ء، اسیر (مظفر علی)، مجمع البحرین، ١٠٦:٢ )
٢ - [ مجازا ]  بادشاہ، بڑا بادشاہ۔
"حسن بانو نے پھر عرض کی اے خسرو ایسے کافر کو ولی نہ کہیے"      ( ١٨٠١ء، آرائش محفل، حیدری، ٩ )
٣ - ہرمز بن نو شیرواں کا بیٹا جو شاہان ایران میں بڑے جاہ و جلال کا بادشاہ گزرا ہے۔ فرہاد کی معشوقہ شیریں اسی کی ملکہ تھی۔
 ہونے کا نہیں دیدۂ شیریں ہی فقط نم خسرو کو بھی ہونا ہے شریکِ صف ماتم      ( ١٩٥٨ء، نبض دوراں، ١٦٦ )
  • Famous or great king;  a royal surname;  the celebrated king Cyrus or chosroes;  name of a famous poet of Delhi