بادشاہ

( بادْشاہ )
{ باد + شاہ }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان کا اسم ہے فارسی میں 'پادشا' مستعمل ہے۔ اردو زبان میں اصلی معنی میں ہی 'بادشاہ' مستعمل ہے اردو پر عربی اثرات کی وجہ سے 'بادشاہ' لکھا جاتا ہے لیکن صحیح املا 'بادشا' ہی ہے۔ ١٥٠٠ء میں "معراج العاشقین" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع   : بادْشاہان [باد + شا + ہان]
جمع ندائی   : بادْشاہو [باد + شا + ہو (واؤ مجہول)]
جمع غیر ندائی   : بادْشاہوں [باد + شا + ہوں (واؤ مجہول)]
١ - صاحب تخت و تاج، خود مختار حکمران جو کسی کے سامنے جواب دہ نہ ہو۔
"بہادر شاہ کو انگریز پکڑ کر کالے پانی لے گئے تو انگریز بادشاہ ہوئے یا نہ ہوئے۔"      ( ١٨٦٨ء، مرآۃ العروس، ٢١٨ )
٢ - مالک، خداوند، حاکم۔
 وراثت سید مرحوم کی جام گدائی ہے جو اس گھر کا گدا ہو گا دلوں کا بادشا ہو گا      ( ١٩٣٧ء، نغمہ فردوس، ٤٧:١ )
٣ - اپنی مرضی کا مختار، غنی، مطلق العنان، دوسروں سے بے نیاز۔
 حر سے کوئی امید تعاون گناہ ہے مانے گا کیا وہ بات مری بادشاہ ہے      ( ١٩٥٢ء، مرثیہ یکتا امروہوی، ١٣ )
٤ - [ مجازا ]  اعلٰی، افضل، ممتاز، سردار، نمایاں۔
"ہند کے جنگلوں میں بادشاہ دو درخت ہیں، سال اور ساگوان۔"      ( ١٩١٣ء، تمدن ہند، ٤٩ )
٥ - استاد فن، کسی ہنر میں کامل، جیسے : بھولو پہلوان کشتی کا بادشاہ ہے۔ (ماخوذ : پلیٹس)
٦ - تاش کا ایک پتا جس پر بادشاہ کی تصویر بنی ہوتی ہے اور وہ کھیل میں بیگم سے اعلٰی اور اکّے سے پست سمجھا جاتا ہے۔
"بخدا چڑی کے بادشاہ کی سی داڑھی چڑھائے، کلّے پر کلّہ، گٹھا ہوا بدن، سینہ آگے کو بھپرا ہوا۔"      ( ١٩٣١ء، روح لطافت، ١١٠ )
٧ - شطرنج کا وہ مہرہ جو صرف گھوڑے کی چال قبل از کشت چلتا اور دوڑ دھوپ سے محفوظ رہتا ہے۔ (فرہنگ آصفیہ، 347:1)
  • king
  • monarch
  • sovereign;  lord
  • master;  a proficient (in)