پھڑکنا

( پَھڑَکْنا )
{ پَھڑَک + نا }
( ہندی )

تفصیلات


پھڑکنا  پَھڑَکْنا

ہندی سے اصل صورت اور مفہوم کے ساتھ داخل ہوا۔ بطور مصدر استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦١٥ء کو "جان سخن" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - حرکت کرنا، جنش کرنا، ہلنا۔
"کوئی قطرہ پانی کا مچھلی پر گرا وہ زندہ ہوئی اور زنبیل میں پھڑکی"    ( ١٨٤٥ء، احوال الانبیا، ٥٣٨:١ )
٢ - کسی عضو کا حرکت کرنا۔
"چہرے پر خفیف دلاویز تمتماہٹ دوڑ جاتی ہے ہونٹ پھڑکنے لگتے ہیں"    ( ١٩٤٤ء، افسانچے، ٦٠ )
٣ - بچے کا ماں کے پیٹ میں حرکت کرنا۔ (نوراللغات)۔
٤ - تڑپنا، لوٹنا، تلملانا۔
"اب بے زبان بچے کا پھڑکنا نہیں دیکھا جاتا"      ( ١٩٤٣ء، جنت نگاہ، ١٤١ )
٥ - (پرندے کا بے تاب ہو کر) بال و پرمارنا، پھڑپھڑانا۔
 حسرت دیدار گلش میں پھڑک کر مر گئی آخرش کنج قفس تابوت بلبل ہو گیا      ( ١٩٢٢ء، دیوان جگر، افتخار علی، ٥٠ )
٦ - بے قرار ہونا، بے تاب ہونا۔
"آپ کو خط لکھنے کے لیے پھڑکتی تھی"      ( ١٩٢١ء، فغان اشرف، ٣٢ )
٧ - آرزو مند ہونا، نہایت مشتاق ہونا۔
"وہ نظارہ بھی حاصل ہو جائے گا جس کے لیے وہ پھڑک رہے تھے"    ( ١٩٣٨ء، بحرتبسم، ٧٩ )
٨ - تڑپنا، (بے چینی کے ساتھ) راہ تکنا۔
"وہ لوگ بھی جو تمہاری صورت کو ترستے پھڑکتے ہیں خوش ہو جائیں گے"    ( ١٩٢٤ء، انشائے بشیر، ١٦٤ )
٩ - (خوشی سے) بے تاب ہونا، خوش ہونا۔
 جو سنتا ہے تڑپتا ہے جو پڑھتا ہے پھڑکتا ہے نہ خنجر ایسے ہوتے ہیں نہ نشتر ایسے ہوتے ہیں    ( ١٩٢٨ء، سرتاج سخن، ٤٣ )
١٠ - (غصے سے) بے قرار ہونا، ناخوش ہونا۔
 تک کے ٹک تم کو خوش کیا تھا دل بھڑکے کیوں بھڑکے کیوں یہ کیا کرے    ( ١٨١٨ء، اظفری، دیوان، ٥٢ )
  • to flutter
  • to twitch convulsively
  • vibrate with convulsive involuntary motion (as the eyelids)