شراکت

( شِراکَت )
{ شِرا + کَت }
( عربی )

تفصیلات


شرک  شِراکَت

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے۔ اور سب سے پہلے ١٧٨٢ء کو "دیوانِ محبت (قلمی نسخہ)" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
واحد ندائی   : شِراکَتیں [شِرِا + کَتیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : شِراکَتوں [شِرا + کَتوں (و مجہول)]
١ - حصہ داری، ساجھا، اشتراک۔
"کازید یز کی نظر میں یکتائی کی سلطنت یہی ہے جس میں کسی کو شراکت نہیں"      ( ١٩٠٨ء، رسالہ صلائے عام، نومبر، ١٤ )
٢ - شریکِ یا شامل ہونے کا عمل، شمولیت، شریک ہونا۔
"مجھ کو شہنشاہ نے طرف چاہ بابل کے برائے شراکتِ جلسہ بھیجا تھا"      ( ١٨٩٦ء، لعل نامہ، ٦٥:١ )
٣ - [ قانون ]  کاروبار کی ایسی تنظیم جس میں دو یا زیادہ اشخاص بہ حیثیت مجموعی کاروبار کرتے ہیں۔ سب افراد مقررہ شرائط اور معاہدے کے مطابق ایک خاص نسبت سے زمین، محنت اور سرمایا فراہم کرتے ہیں اور باہمی طور پر کاروبار کے انتظامی امور سنبھالتے ہیں نفع یا نقصان حصص کے تناسب سے تقسیم ہوتا ہے۔
"کاروبار میں برابر کی شراکت مرد کی بھی ہوتی ہے"      ( ١٩٨٧ء، آجاؤ افریقہ، ٩٥ )
٤ - کپمنی، شرکا کی جماعت۔
"اسکا ٹھیکا رانڈین ٹریڈنگ کمپنی نامی ایک ہندوستانی شراکت کو دیا گیا ہے"      ( ١٩٣٢ء، تختِ طاؤس، ٣٠ )
٥ - [ کرکٹ ]  جیت کے لیے دو بلے بازوں کی متفقہ کوشش۔
"دوسری بڑی شراکت جاوید میاں داد اور آصف اقبال کے درمیان تھی"      ( ١٩٨٤ء، اقبال قاسم اور کرکٹ، ١٧٣ )
  • شِرکَت
  • شَمُولِیَّت
  • Partnership
  • fellowship
  • participation