دباؤ

( دَباؤ )
{ دَبا + او (و مجہول) }
( پراکرت )

تفصیلات


دب  دَباؤ

پراکرت کے لفظ 'دب' کے ساتھ 'نا' بطور لاحقۂ مصدر لگانے سے 'دبنا' بنا جس سے فعل متعدی 'دبانا' ہے۔ 'دبانا' سے لاحقۂ مصدر 'دبا' ہٹا کر 'ؤ' بطور لاحقۂ اسمیت لگایا گیا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٨٠٣ء، کو "گنج خوبی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - بوجھ، وزن؛ زور، طاقت۔
"فضا دیگر اشیا کی مانند اپنا وزن رکھتی ہے اور فضا کے اس وزن کو دباؤ کہتے ہیں"      ( ١٩٦٧ء، عالمی تجارتی جغرافیہ، ٥٣ )
٢ - رعب داب، زور، اثر۔
'سوسائٹی کا دباؤ بھی اپنا اثر کیے بغیر نہیں رہتا"      ( ١٩٥٨ء، شاد کی کہانی شاد کی زبانی، ٥٦ )
٣ - خوف، ڈر، دہشت۔
"حاجی صاحب کا شہر میں اتنا دباؤ تھا کہ ارباب نشاط بھی ان کی مرضی کی خلاف ورزی نہ کرسکتی تھیں۔"      ( ١٩١٦ء، بازار حسن، ٢٦٢ )
٤ - سختی، جبر۔
"یہ کردار بھی آموزش اور معاشرتی دباؤ کے ذریعے تیزی سے بدل جاتے ہیں"      ( ١٩٦٩ء، نفسیات کی بنیادیں، ١١٣ )
٥ - لحاظ، خیال۔ (ماخوذ: نوراللغات)
٦ - حکم، تحکم، حکومت، اختیار۔ (فرہنگِ آصفیہ)
  • Pressing down
  • keeping down;  oppressing
  • oppressive;  pressing heavily in front (as a load of cart);  an oppressor.