احداث

( اِحْداث )
{ اِح (کسرہ ا مجہول) + داث }
( عربی )

تفصیلات


حدث  اِحْداث

عربی زبان میں ثلاثی مزید فیہ کے باب افعال سے مصدر اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦١١ء کو "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم حاصل مصدر ( مذکر - واحد )
١ - کسی شے یا بات کو عدم سے وجود میں لانے کا عمل، اختراع و ایجاد، تخلیق، نئی بات نکالنا یا پیدا کرنا۔
"تدبیریں نہاں خانہ دماغ . دماغ سے احداث و ایجاد فرما کر زیب قرطاس فرماتے ہیں۔"      ( ١٩٣٠ء، اودھ پنچ، لکھنو، ١٥، ٧؛ ٦ )
٢ - کسی جگہ کی بنیاد ڈالنے یا بنوانے کا کام، تاسیس، تعمیر۔
"اس نے باغ و بوستان و صباب کے احداث میں کوشش کی۔"      ( ١٨٩٧ء، تاریخ ہندوستان، ٦٣٥:٤ )
٣ - کسی ایسی شے یا بات کے دریافت ہونے کا عمل جو نفس الامر میں پہلے سے موجود ہو مگر معلوم نہ ہو، دریافت۔
"اس حکیم نے بنا بر تعظیم اس سیارہ نو احداث کو اس کے اسم سے موسوم کیا ہے۔"      ( ١٨٣٧ء، ستہ شمسیہ، ١٣٥:٢ )
٤ - [ دینیات ]  احکام یا اعمال میں کوئی ایسی بات شامل کرنا جو شارع سے مروی نہ ہو، بدعت۔
"مولانا تصوف کے متعلق کہتے تھے کہ . اسلام سے اس کو تعلق نہیں ہے احداث فی الدین اور تکلف ہے۔"      ( ١٩٢٩ء، تذکرہ کاملان رام پور، ١٨٢ )
  • bringing into existence;  causing to be made;  making or constructing a fresh;  production;  invention;  novelty;  innovation