فارسی زبان میں اسم 'جان' کے ساتھ مصدر 'داشتن' سے مشتق صیغۂ امر 'دار' بطور لاحقۂ فاعلی لگنے سے مرکب توصیفی 'جان دار' بنا۔ اردو میں بطور اسم صفت اور گاہے اسم مستعمل ہے۔ ١٧٩٤ء میں "سنگ نامہ دو جوڑا" میں مستعمل ملتا ہے۔
جمع غیر ندائی : جان داروں [جان + دا + روں (و مجہول)]
١ - ذی روح، حیوان۔
"جب اس کا پیٹ بھرا ہوتا ہے تو کسی جاندار پر حملہ نہیں کرتا۔"
( ١٩٠٣ء، توپ خانہ، ٣١ )
٢ - [ مجازا ] قوی، زورآور، توانا، طاقت ور۔
"آٹا دال کر سوندھا، ذرا جاندار ہاتھوں سے مکی دی۔"
( ١٩٠٨ء، صبح زندگی، ١٣٦ )
٣ - زوداثر، پراثر، پرزور۔
"ایسی جان دار انشا پردازی غالباً فارسی زبان کی کسی دینی تصنیف میں نہ ملے گی۔"
( ١٩٥٣ء، تاریخ مسلمانان پاکستان، ٥٨٦:١ )
٤ - زندہ
"انیسویں صدی عیسوی میں پچھم والوں کا یہ مت تھا کہ بولی بھی جاندار ہوتی ہے۔"
( ١٩٧١ء، اردو کا روپ، ١٣ )
٥ - واضح
"آیت پڑھتے پڑھتے ایسا مضمون دماغ میں آ جاتا ہے کہ اسے لکھ کر آیت شامل کر دیتا ہوں مضمون سے آیت کا جاندار مطلب سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔"
( ١٩٧٠ء، تاثرات، ٢٦ )
٦ - [ مقابلۃ ] مضبوط، مستحکم۔
"وکیلوں نے رائے دی ہے کہ گھبرانے کی بات نہیں ہے مقدمہ جاندار ہے۔"
( ١٨٨٠ء، فسانۂ آزاد، ١٢٤:١ )