جان دار

( جان دار )
{ جان + دار }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان میں اسم 'جان' کے ساتھ مصدر 'داشتن' سے مشتق صیغۂ امر 'دار' بطور لاحقۂ فاعلی لگنے سے مرکب توصیفی 'جان دار' بنا۔ اردو میں بطور اسم صفت اور گاہے اسم مستعمل ہے۔ ١٧٩٤ء میں "سنگ نامہ دو جوڑا" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - [ مجازا ]  امیر، دولت مند۔
 جو جاندار تھے اپنی جاں سے چلے غریبوں کو آنے لگے زلزلے      ( ١٧٩٤ء، سنگ نامہ دو جوڑا، ٤٤ )
٢ - [ مجازا ]  خوبصورت دل کش دل آویز اشیا یا انسان۔
"تم نے کبھی دیکھا ہے کہ گلاب کے پھول اپنی جھاڑیوں کے بجائے گلدان میں زیادہ رنگین، زیادہ روشن اور جاندار لگتے ہیں۔"      ( ١٩٤٧ء، میرے بھی صنم خانے، ٢٩ )
٣ - "جاں نثار، قابل اعتماد؛ (مجازاً) سلطانوں کے باڈی گارڈوں کا دستہ جو مالک کی حفاظت میں جان دینے کو تیار رہتے ہیں۔"
"طغرل کے جاندار اور سلاح دار خداوندعالم، خداوند عالم کہتے ہوئے دریا کے نزدیک آئے اور اس کو تلاش کرنے لگے۔"      ( ١٩٦٩ء، تاریخ فیروز شاہی، ١٦٤ )
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : جان داروں [جان + دا + روں (و مجہول)]
١ - ذی روح، حیوان۔
"جب اس کا پیٹ بھرا ہوتا ہے تو کسی جاندار پر حملہ نہیں کرتا۔"      ( ١٩٠٣ء، توپ خانہ، ٣١ )
٢ - [ مجازا ]  قوی، زورآور، توانا، طاقت ور۔
"آٹا دال کر سوندھا، ذرا جاندار ہاتھوں سے مکی دی۔"      ( ١٩٠٨ء، صبح زندگی، ١٣٦ )
٣ - زوداثر، پراثر، پرزور۔
"ایسی جان دار انشا پردازی غالباً فارسی زبان کی کسی دینی تصنیف میں نہ ملے گی۔"      ( ١٩٥٣ء، تاریخ مسلمانان پاکستان، ٥٨٦:١ )
٤ - زندہ
"انیسویں صدی عیسوی میں پچھم والوں کا یہ مت تھا کہ بولی بھی جاندار ہوتی ہے۔"      ( ١٩٧١ء، اردو کا روپ، ١٣ )
٥ - واضح
"آیت پڑھتے پڑھتے ایسا مضمون دماغ میں آ جاتا ہے کہ اسے لکھ کر آیت شامل کر دیتا ہوں مضمون سے آیت کا جاندار مطلب سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔"      ( ١٩٧٠ء، تاثرات، ٢٦ )
٦ - [ مقابلۃ ]  مضبوط، مستحکم۔
"وکیلوں نے رائے دی ہے کہ گھبرانے کی بات نہیں ہے مقدمہ جاندار ہے۔"      ( ١٨٨٠ء، فسانۂ آزاد، ١٢٤:١ )
  • A living thing
  • an animal (generally implying strength)