سرمایہ دار

( سَرْمایَہ دار )
{ سَر + ما + یَہ + دار }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان میں اسم 'سرمایہ' کے ساتھ فارسی مصدر 'داشتن' سے مشتق صیغۂ امر 'دار' بطور لاحقہ فاعلی لگانے سے مرکب توصیفی 'سرمایہ دار' بنا۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسمِ صفت استعمال ہوتا ہے۔ بطور لاحقہ فاعلی لگانے سے مرکب توصیفی ہے ١٩٠٥ء کو "بانگ درا" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع غیر ندائی   : سَرْمایَہ داروں [سَر + ما + یَہ + دا + روں (و مجہول)]
١ - مال و دولت رکھنے والا، دولت مند، امیر، اہل ثروت۔
"یوں معلوم ہوتا تھا کہ اس شہر میں یا تو بھوک اگتی ہے جو غریبوں کو کھائی جا رہی ہے یا ناتواں کے نوالے سرمایہ دار عقاب جھپٹ کر لے جاتے ہیں"      ( ١٩٧٥ء، ہمہ یاراں دوزخ، ٨٩ )
٢ - مالا مال (کسی چیز سے)، کوئی شے وافر مقدار میں رکھنے والا، مالدار۔
"ہندی کے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ کرنے کے لیے . آئین کے بنائے ہوئے طریقے سے اس کو سرمایہ دار بنانا ہے"      ( ١٩٦٠ء، اردو زبان اور ان کا رسم الخط (ضمیمہ)، ٨٩ )
٣ - حامل (کسی خوبی یا نعمت کا)، استطاعت رکھنے والا، قابلیت رکھنے والا۔
"ایک زبان کو علمی حیثیت سے سرمایہ دار بنانے کے لیے جس قدر علمی ذخیرہ کی ضرورت ہے اردو کا دامن اس سے خالی تھا"      ( ١٩٨٦ء، حیات سلیمان، ٨٧ )
٤ - کار خانے یا فیکڑی کا مالک یا بڑا سوداگر جس کی آمدنی کیثر ہو امیر کبیر (مزدور کی ضد)۔
 نچوڑتا ہے لہو غربیوں کا دست سرمایہ دار اب بھی      ( ١٩٥٤ء، آتش گل، ٢٠٦ )
  • capitalist;  rich (person)