سرنگ

( سُرَنْگ )
{ سُرَنْگ (ن غنہ) }
( پراکرت )

تفصیلات


اصلاً پراکرت زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں پراکرت سے ماخوذ ہے اصل معنی اور اصل حالت میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم اور گاہے بطور اسم صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٦٤ء کو حسن شوقی کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث - واحد )
جمع   : سُرَنْگیں [سُرَن (ن غنہ) + گیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : سُرَنْگوں [سُرَن (ن غنہ) + گوں (و مجہول)]
١ - [ مجازا ]  زیر زمین یا پہاڑ کے اندر کھود کر بنایا ہوا راستہ، سوراخ جو کسی شے کے اندر بنایا جائے، نقب۔
"دنیا کی سب سے بڑی سرنگ سوئٹزرلینڈ اور اٹلی کے درمیان واقع ہے۔"      ( ١٩٧٥ء، سرنگ، ٥ )
٢ - زیرزمین نالی جس میں دشمن کی فوج کو اڑانے کے لیے بارود بھر دیا جاتا ہے۔
"میری خاک تک بارود کی سرنگوں سے اڑائیں۔"      ( ١٩٢٤ء، پنجاب میل، ٥٣ )
٣ - بارود بھرا ظرف جسے پانی کے اندر چھوڑ دیا جائے یا خشکی کے راستے میں زمین کے اندر دبا دیا جائے تاکہ دشمن کے سمندری جہاز یا زمین پر چلنے والی گاڑیاں اس سے ٹکرا کر تباہ ہو جائیں، دریائی یا زمینی سرنگ۔
"لڑائی کی خبروں میں بحری سرنگوں کا ذکر آیا کرتا ہے۔"      ( ١٩١٥ء، سی پارۂ دل، ١٢٠:١ )
٤ - [ مجازا ]  سراغ، پتا، کھوج، تھانگ۔
"تم کیونکر سرنگ لگاتے ہوئے یہاں تک پہنچے۔"      ( ١٨٩٨ء، فرہنگ آصفیہ، ٧٣:٣ )
٥ - [ موسیقی ]  سری راگ کا تیسرا پتر۔
 جواں نے دیکھ بزم اور سب سمایا سرنگ اپنے اکت سے جوڑ گایا      ( ١٧٥٩ء، راگ مالا، ٥٢ )
صفت ذاتی ( واحد )
١ - شعلہ رنگ گھوڑا جس کی رنگت میں گل انار یا زعفران کے رنگ کی سی جھلک ہو، وہ سرخ رنگ گھوڑا جس کی ایال اور دم کے بال بھی سرخ ہوں۔
"حنظلہ اپنے عربی سرنگ گھوڑے پر سوار ہو کے عربوں کے لشکر سے نکلا۔"      ( ١٩٠٠ء، ایام عرب، ٢٧٤:٢ )
٢ - [ مجازا ]  گھوڑا
 مضموں جو سوچنے لگے اڑنے لگا قلم میدان پا کے اور ہوا یہ سرنگ شوخ      ( ١٨٨٨ء، صنم خانۂ عشق، ٧٣ )
٣ - سرخ، لال جسم والا۔
 سرنگ اسمان گیریاں تھی شفق سی اتھے گلدار جیوں گھنکے طبق سی    ( ١٧٣١ء، نیہ در پن (اردو شہ پارے، ٢٨٦) )
٤ - اچھے رنگ کا، خوشرنگ۔
"یورنگ رنگ کے پھول، سرنگ، مقبول، سب کو بھاتے یو پھول۔"    ( ١٦٣٥ء، سب رس، ٩ )
  • Bright-coloured;  light bay or chestnut (horse)