خطیر

( خَطِیر )
{ خَطِیر }
( عربی )

تفصیلات


خطر  خَطِیر

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم فاعل ہے اردو میں بطور صفت مستعمل ہے ١٨٠٥ء کو "آرائش محفل" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - بڑا، کثیر، بہت (پیشتر رقم روپیہ پیسہ)۔
"ایک بے بنیاد اطلاع پر منصور نے اس کو فارس سے واپس بلا لیا اور اس کے ذمہ خراج کی ایک خطیر رقم نکالی"      ( ١٩٧٥ء، تاریخ اسلام، معین الدین ندوی، ٧٤:٣ )
٢ - قابل قدر ومنزلت؛ (کنایتاً) بیش بہا، قیمتی۔
 لازم ہے قدر عمر کہ جنسِ خطیر ہے جس کی بہا نہیں ہے وہ درِ بے نظیر ہے    ( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٣٠٢:٣ )
٣ - عالی رتبہ، عالی منزلت، بزرگ، اعلٰی۔
"پروردگار یہ تصدیق آئمہ اظہار . تم کو مبارک کرے اور منصب پائے خطیر اور مدارج عظیم کو پہنچاوے"    ( ١٨٥٨ء، خطوط غالب، ٢١٢ )
٤ - خطرناک، جس میں نقصان کا اندیشہ ہو۔
 جان کا لڑانا ہے نہ لڑانا ہے آنکھ کا بازی نہیں ہے، عشق مہم خطیر ہے      ( ١٨٧٣ء، دیوان فدا، ٣٤١ )
  • Characterized by rank or station
  • eminent
  • noble
  • honourable
  • dignified
  • great
  • important