شفاعت

( شَفاعَت )
{ شَفا + عَت }
( عربی )

تفصیلات


شفع  شَفاعَت

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٥٩١ء کو "قصہ فیروز شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مؤنث - واحد )
١ - سفارش؛ معافی کی سفارش۔
"ہمیں اپنے جرم کا اعتراف ہے لیکن . ہم اس عذر کو اپنی شفاعت میں پیش کر سکتے ہیں"    ( ١٩٨٥ء، مولانا ظفر علی خان، بحیثیت صحافی، ١٤٣ )
٢ - اللہ سے گنہ گار کے بخشش کی سفارش (مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق خاتم النبینۖ مسلمانوں کی بخشش کی سفارش کریں گے)۔
"اور قیامت کے روز حضور اپنی امت کی شفاعت کے لیے اللہ کے حضور عرض کریں گے"    ( ١٩٨٨ء، صحیفہ، لاہور، اکتوبر، ٥٥ )
٣ - بخشش، معافی۔
"اس قسم میں مریض خایف زدہ رہتا اور اپنے خالق کے فرایض کے بہ نسبت غمگین خیالات پیدا کرتا ہے کہ کوئی صورت شفاعت کی نہیں ہے"      ( ١٨٦٠ء، نسخہ عملِ طب، ٣٨٣ )
  • شِفارِش
  • Deprecation
  • intercession
  • recommendation
  • entreaty