اخفا

( اِخْفا )
{ اِخ + فا }
( عربی )

تفصیلات


خفی  خَفی  اِخْفا

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب افعال سے مصدر 'اِخْفاء' بنا۔ اردو میں آخری 'ء' کی آواز نہ ہونے کی وجہ سے اس کو حذف کر دیا گیا۔ اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ سب سے پہلے قائم کے دیوان میں ١٧٩٥ء کو مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - چھپ کر پوشیدہ طور پر۔
 حلاوت یاں کہاں جب ہوئے آب شور کا دریا زلال خضر کا اک چشمہ سو بھی سب سے اخفا ہو      ( ١٨٥٤ء، ذوق، دیوان، ١٥٨ )
اسم حاصل مصدر ( مذکر - واحد )
١ - چھپانے کی کیفیت یا عمل، چھپانا، مخفی رکھنا۔
 فکر اخفا رائگاں ہے راز افشا ہو چکا جس کی قسمت میں تھی رسوائی وہ رسوا ہو چکا    ( ١٩٤٧ء، نواے دل، ٥ )
٢ - چھپنے کی کیفیت یا عمل، پوشیدگی۔
"جو بھی اسرار پردہ اخفا میں ہوں انسانی ذہن کو ان کی کرید رہتی ہے۔"    ( ١٩٦٥ء، موسیقی، ١٠٧ )
٣ - [ فقہ ]  دھیمی آواز سے قرآت کہ پاس کھڑا ہوا شخص بھی نہ سن سکے۔
 اخفا ہے ظہر و عصر میں واحب دم قیام باقی ہر اک نماز کرے جہر سے تمام      ( ١٩٣٧ء، سلیم (اولاد حسن) بیاض (ق)، ١٩ )
٤ - [ تجوید ]  حرف 'ن' یا تنوین کے اظہار و ادغام کی درمیانی حالت (یعنی ناک میں آواز پوشیدہ کر کے پڑھنا۔ (علم التجوید، 37)
متعلق فعل
١ - چھپ کر، پوشیدہ ہو کر۔
 نہ تھا حکم افشا عبادت کا جب بجا لایا اخفا وہ سب حکم رب      ( ١٨٤٨ء، ہیبت حیدری، ١١٨ )