خلاص

( خَلاص )
{ خَلاص }
( عربی )

تفصیلات


خلص  خَلاص

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور صفت مستعمل ہے۔ ١٦١١ء کو "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
١ - آزاد، رہا، چُھوٹا ہوا۔
"ہم جدوجہد کرتے ہیں کہ مصائب خلقت کو مصیبت کے وقت میں کم کریں اور اس کو خلاص کریں۔"      ( ١٩٠٧ء، کرزن نامہ، ١٠٥ )
٢ - مبشارت سے فارغ، انزال کا ہو جانا۔
 یوں کر تو دیکھ ہوتی ہوں جلدی سے میں خلاص عریاں خدا کے واسطے ملنے سے تھم نہیں      ( ١٩٣٨ء، کلیات عریاں، ٢٨ )
٣ - فراغت، کام کا ختم ہونا، ختم۔
"خلاص اب کل تک یہ ٹاپک بند، افتخار نے جوش دلی سے کہا۔"      ( ١٩٨١ء، راجہ گدھ، ٥٤٣ )
٤ - رہائی، نجات، چھٹکارا۔
 دام سے تیرے موسمِ گل میں بلبلوں کو نہیں ہوا ہے خلاص      ( ١٨٥٥ء، کلیات شیفتہ، ٣٩ )
١ - خلاص ہونا
(کسی چیز کا) ختم ہونا، باقی نہ رہنا، باقی نہ بچنا۔"کاغذ کے بیوپاری نے کہا "مال خلاص ہے۔"      ( ١٩٦٢ء، تدریس اردو، ٣٦ )
بچہ جننا، وضع حمل ہونا۔"ترتیب پہلی کہ جچکیاں دیر تلک خلاص نہیں ہوتیں یعنی طول جچکیاں۔"      ( ١٨٤٨ء، اصول فن قبالت، ٦٢ )
تہی دست ہونا، نادار ہونا۔"جب وہ اپنے گھر کا روپیہ حاکم کو دے کر حلاص ہوتے تو پھر وہ دردی اور رہ زنی سے زد پیدا کرتے ہیں۔"      ( ١٨٩٧ء، تاریخ ہندوستان، ٢٥:٣ )
  • Free
  • liberated
  • redeemed;  done
  • out