روانگی

( رَوانْگی )
{ رَوان + گی }
( فارسی )

تفصیلات


رَفْتَن  رواں  رَوانْگی

فارسی میں 'رفتن' مصدر سے مشتق اسمِ صفت 'روان' کے ساتھ 'گی' لاحقۂ اسمیت ملا کر بنایا گیا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٨٧٤ء میں "تہذیب الاخلاق" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : رَوانْگِیاں [رَوان + گِیاں]
جمع غیر ندائی   : رَوَانْگِیوں [رَوان + گِیوں (و مجہول)]
١ - کسی جگہ سے دوسری جگہ جانے کا عمل، روانہ ہونا، و داع، رخصت۔
"لارڈ لیک کی ولایت کو واپسی کا فیصلہ ہوا تو روانگی سے پہلے انہوں نے . دو پرگنے عین حیات مقرری جاگیر میں عطا کئے۔"      ( ١٩٨٧ء، حیاتِ غالب کا ایک باب، ٣٢ )
٢ - کسی چیز کے بھیجنے کا عمل، ارسال۔ (پلیٹس)
٣ - [ مجازا ]  انتقال، موت۔
 سیر کر لے جہاں کی جب تک آئے تیری روانگی کا پیام      ( ١٩٣٠ء، اردو گلستان، ١٢٣ )
٤ - حرکت، چل پڑنا۔
"کلو نے گدی پر ہاتھ رکھ کر میری گردن جھکالی اور ساتھ ہی اس مصفی خون استرے کو روانگی کا حکم دے دیا۔"      ( ١٩٧٣ء، جہان دانش، ٤٥ )
٥ - مشق، عادت (شاذ)۔
"جو زین سواری کا گھوڑا شانوں سے اترا ہو گا تو ضرور ہے کہ اس کے شانوں میں صفت آزادی اور روانگی بھی پنائی جاوے گی۔"      ( ١٨٧٢ء، رسالہ سالوتر، ٢٢:١ )
٦ - چالان، راہ داری کا پروانہ (جامع اللغات؛ پلیٹس)
  • running
  • flowing;  passing
  • travelling
  • going
  • departure