ارسال

( اِرْسال )
{ اِر + سال }
( عربی )

تفصیلات


رسل  اِرْسال

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب افعال سے مصدر اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں ١٧٩٥ء کو قائم کی "مختار اشعار" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم حاصل مصدر ( مذکر - واحد )
١ - ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجنے یا بھیجے جانے کا عمل، بھیجنا، روانہ کرنا۔
"یہ بھی نہیں لکھا کہ بے ارسال قیمت منگوائی ہے۔"      ( ١٨٦٩ء، غالب، خطوط غالب، ١٧٣ )
٢ - پیغمبر بنا کر بھیجنا، بعثت
 بعد ان کے جو ارسال رسل چھوڑ دیا ہے گویا یہ قدرت نے قلم توڑ دیا ہے      ( ١٩٣٥ء، رموزغیب، ٥ )
٣ - [ طب ]  فاسد خون نکالنے کے لیے جونک لگوانا۔
 یہ ہو چکی ہیں تدبیرات تے اور منفج و مہمل بتا رید و حجامت، فسد و ارسال علق ساتوں      ( ١٨٦٤ء، دیوان حافظ ہندی، ٦٧ )
٤ - [ اصول حدیث ]  تابعی کی اس حدیث میں جو اس نے آنحضرت صلعم سے روایت کی ہو کسی صحابی کا ذکر نہ ہونا، حدیث کا مرسل ہونا۔
"عطا سے جو لوگ روایت کیے ہیں اس کے وصل و ارسال میں اختلاف کیے ہیں۔"      ( ١٨٦٠ء، فیض الکریم، تفسیر قرآن العظیم، ٥٥٣ )
٥ - اوپر سے نیچے چھوڑنا، لٹکانا، نیز لٹکانا۔
 عمر دراز چاہیے فکر دراز کو تاچند رکھوں زلف کے ارسال کا خیال      ( ١٨٥٨ء، تراب، کلیات، ١٢٠ )
٦ - مجاز مرسل کے انیس علاقوں میں سے کسی علاقے کا وجود۔
"دوسری قسم کے محاورے میں ارسال پایا جاتا ہے جو مجاز کی ایک قسم ہے۔"      ( ١٩٦٦ء، اردو لسانیات، ١٤٥ )
اسم حاصل مصدر ( مؤنث - واحد )
١ - مال گزاری یا کرایہ وغیرہ جو وصول کر کے مالک کو یا سرکار کو بھیجا جائے۔
"جس دن آپ کی ارسال لٹی ہے حضور اس دن میں نے رنج سے کھانا نہیں کھایا۔"      ( ١٩٠١ء، قمر (احمد حسین)، طلسم فتنۂ نور افشاں، ١٧٢:٢ )