سسکی

( سِسْکی )
{ سِس + کی }
( پراکرت )

تفصیلات


اصلاً پراکرت زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں پراکرت سے ماخوذ ہے اصل معنی اور اصل حالت میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٠٣ء کو "رانی کیتکی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : سِسْکِیاں [سِس + کِیاں (ی لین)]
جمع غیر ندائی   : سِسْکِیوں [سِس + کِیوں (ی لین) (و مجہول)]
١ - وہ آواز جو تکلیف میں منھ بھینچ کر نکالی جائے، سانس کو روک روک کر رونے کی آواز، ہچکی، سسکاری۔
 دلوں کا نوحۂ غم سسکیوں میں ڈھلتا ہے وہ درد ہے کہ کوئی کھل کے رو نہیں سکتا      ( ١٩٨٤ء، لہو پکارتا ہے، ١٩ )
٢ - جاڑے کے باعث سو سو کی آواز، عورت کا جماع کراتے وقت زیر لب آہ آہ کرنا۔
 پیار کرے اور سسکی بھرے پھر سسکی بھر کر پیار کیا جانے کیا اک اک کر کے بھا گئے سب یار      ( ١٩٦٧ء، لاحاصل، ٧٤ )
٣ - (بانک بنوٹ) بنوٹ کا وار۔
"پوشیدہ نہ رہے کہ جب خالی دیکر داہنے یا بائیں طرف آئے تو کشتی کے پینچ مثل پولیاں یا پٹ لینا، سسکی، باہر لاد، کولا، دھوبی پاٹ اور قلا جنگ وغیرہ ہو سکتے ہیں۔"      ( ١٨٤٦ء، رسالہ بانک بنوٹ، ٤٠ )
١ - سسکی بندھنا
سخت تکلیف میں ہونا، عالم نزع ہونا۔"آنکھ سے آنسوءوں کی دھار ماری تھی، عقل عاری تھی سسکی بندھی، ہچکی لگی تھی۔"      ( ١٩٠١ء، الف لیلہ، سرشار،٢٩ )
٢ - سسکی بھرنا
پیہم سانس لے کر رونا، آہ سرد بھرنا۔ دیکھو چٹکی تھی مری ایسی کیا بس کی بھری جس پہ گوئیاں نے جیا اتنی
٣ - سسکی لینا
جذبات کا اظہار کرنا۔"فریادیں سنگ مر مر کی جالیوں میں سسکیاں لیتی ہوئی شہر لاہور کی فضاءوں میں تحلیل ہو رہی ہیں۔"      ( ١٩٨٦ء، فیضان فیض، ١٠ )
  • sobbing;  sob;  sigh;  gasp