اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - ہلکا پن۔
"صرف لفظ کا فصیح ہونا کافی نہیں بلکہ جن الفاظ کے ساتھ وہ ترکیب میں آئے ان کی سبکی اور گرانی کو خاص تناسب اور توازن ہو۔"
( ١٩٠٤ء، مقالاتِ شبلی، ٩:٢ )
٢ - ذلت، توہین، اہانت، بے عزتی، بے قدری۔
"اس میں ہاتھی کی بھی سبکی ہے اور اپنی بھی بے عزتی ہے۔"
( ١٩٨٤ء، زمین اور فلک اور، ١٦١ )
٣ - حقارت، تحقیر۔
"میں مجبور ہوا کہ مذہب کا بڑی سبکی سے ذکر کروں۔"
( ١٩٠٧ء، نپولین اعظم (ترجمہ)، ١٣٨:٢ )
٤ - وہ بات جو متانت و بربادی کے خلاف ہو، چھچھورپن۔
"ان سے گفتگو کرنا سبکی نہیں تو کم از کم تہذیب و شرافت کے منافی خیال کیا جاتا ہے۔"
( ١٩٤٢ء، بھاگ نگر کی طوائفیں، ٤٧ )
٥ - آہستگی، نرمی؛ برابری، یکسانی؛ ہمواری۔
"ان دونوں میں نہ لوچ ہوتا ہے نہ ہمواری اور نہ سبکی، موخر الذکر یا زیادہ موٹے ہیں یا بہت پتلے۔"
( ١٩٦٣ء، صحیفۂ خوش نویساں، ٢٠٣ )
٦ - پتلاپن، نازکی، نزاکت۔
"محض نقوش میں سبکی اور حرکت آفرینی ہے۔"
( ١٩٥١ء، تاریخ تمدن ہند، ١٩٨ )
٧ - پھرتی، تیزی، عجلت، صفائی؛ مہارت۔
سبکی سے یوں بلند کیا نابکار کو جس- طرح منہ میں شیر اٹھائے شکار کو
( ١٩٢٧ء، شاد عظیم آبادی، مراثی، ٦٨:٢ )
٨ - نرمی، ملائیت۔
"رفتار میں خفیف سی کپک آساسبکی اور رفتار میں ہلکی سی شکریں حلاوت سبھی کچھ ہے۔"
( ١٩٢٤ء، مذاکرات نیاز فتحپوری، ١٥٢ )
٩ - شرمندگی، خفت، پشیمانی۔
"وقت پر ایسی زبان بند ہو جاتی ہے کہ. خفت و سبکی اٹھانی پڑتی ہے۔"
( ١٨٨٨ء، نشنیف الاسماع، ٧٠ )