درویش

( دَرْویش )
{ دَر + ویش (ی مجہول) }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم جامد ہے۔ اردو میں ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦١١ء کو قلی قطب شاہ کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : دَرْویشوں [دَر + وے + شوں (و مجہول)]
١ - گدا، بھکاری، سائل، فقیر۔
"جو درویش و فقیر کبھی کبھار کسی کو دے دیتے ہیں اور لینے والا باعث برکت سمجھ کر اسے حفاظت سے رکھتا ہے۔"      ( ١٩٨٢ء، تاریخ ادب اردو، ٢، ١٣٩:١ )
٢ - مسکین، غریب۔
مسکین درویش حسین کہے میں کچھ بھی نہیں سب تو      ( دربن دربن (ترجمہ)، ١٠٨ )
٣ - جس نے اللہ کے واسطے فقر اختیار کیا ہو، سالک؛ اللہ والا، خدا رسیدہ شخص۔
 چمکے اسی کے ذکر سے آئینہ عمل درویش و اولیا و پیغمبر اسی کے ہیں      ( ١٩٨٤ء، الحمد، ٥٠ )
٤ - سمالی کے حاکم کا لقب۔
"سرزمین سمالی . کے حاکم شیوخ قبائل ہوتے ہیں، درویش، یا ملا، ان کا لقب ہے۔"      ( ١٩٢٤ء، جغرافیۂ عالم، ١٦٨:٢ )
٥ - امام مہدی کو ماننے والا ایک مذہبی فرقہ۔
"مہدی کو رہنما و پیشوا ماننے والوں کو درویش کہا جاتا ہے۔"      ( ١٩٧٣ء، فرقے اور مسالک، ٣٠٤ )
  • Poor
  • indigent;  a dervish
  • a religious mendicant
  • a beggar.