شگون

( شُگُون )
{ شُگُون }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی سے اردو میں اصل ساخت اور مفہوم کے ساتھ من و عن داخل ہوا نیز سنسکرت میں اسکا مترادف لفظ 'شکن' مستعمل ملتا ہے۔ 'شگون' اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اور سب سے پہلے ١٦٠٣ء کو "شرع تمہیداتِ ہمدانی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - نیک و بد ساعت دیکھنے کا عمل، فال۔
"درگاہ کے قریب ایستادہ کھرنی کے درخت پر رہ رہ کر دو الو کڑ کڑا پڑتے تھے اور یہ سب بدشگون تھے ویسے ہم شگون کے قائل نہیں ہیں۔"    ( ١٩٨٦ء، جوالا مُکھ، ٢٠١ )
٢ - فالِ نیک کے طور پر رسم اور اسکی ادائیگی۔
"مگر سنا ہے وہ یہ شگون کے طور پر کرتے ہیں اور نیل کا ماٹھ سنور جاتا ہے۔"    ( ١٩٨١ء، چلتا مسافر، ٢٢٨ )
٣ - نیگ، نذرانہ؛ منگنی، (فرہنگِ آصفیہ؛ نوراللغات)
٤ - اچھا اثر، آثار۔
"جدید مغربی رجحانات جو ایک سیلاب کی طرح ہماری موجودہ شاعری میں در آتے ہیں . اچھا شگون نہیں ہے۔"      ( ١٩٧٩ء، شیخ ایاز شخص اور شاعر، ٤٢ )
  • An omen
  • augury