آنسو

( آنْسُو )
{ آں + سُو }
( سنسکرت )

تفصیلات


اکشو  آنْسُو

سنکسرت میں اصل لفظ 'اکشو' ہے اور اس سے ماخوذ اردو میں 'آنسو' مستعمل ہے۔ فارسی میں 'اشک' ہے اور ہندی میں 'آنجھو' ہے اغلب امکان ہے کہ سب کا ماخذ سنسکرت ہی ہے اردو میں سب سے پہلے ١٧٤٦ء میں "قصہ مہر افروز و دلبر" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : آنْسُوؤں [آں + سُو + اوں (و مجہول)]
١ - پانی کا وہ قطرہ جو غم تکلیف یا خوشی کی شدت میں یا شدید کھانسی اور قہقہے کے وقت آنکھوں سے نکلے، اشک، ٹسوے۔
"وہ صبح کو اٹھ اٹھ کے روتی اور یوں ٹپ ٹپ آنسو گراتی ہیں جیسے پتیوں پر سے شبنم کی بوندیں گرتی ہوں۔"      ( ١٩٢٣ء، مضامین شرر، ١، ٤٠١:٢ )
  • ٹِسْوَہ
  • آنْجھُو
١ - آنسووں سے منہ دھونا
زار و قطار رونا، اتنا رونا کہ آنسووں سے منہ تر ہو جائے۔ عاشور کی سحر کو شہ بیکس و غریب منہ آنسووں سے دھوتے تھے پانی نہ تھا نصیب      ( ١٩٧١ء، مرثیہ یاور اعظمی، ٧ )
٢ - آنسووں کا تار باندھنا
لگاتار زار و قطار رونا خلق تجھ سے بے خبر ہے دے خبر خالق کو تو تار برقی گر نہیں ہے آنسووں کا تار باندھ      ( ١٩٢١ء، اکبر، کلیات، ١٦٨:١ )
٣ - آنسووں کا تار بندھنا
پھوٹ پھوٹ کر رونے سے لگاتار آنسو بہنا۔'قرآن مجید کی چند آیتیں زبان مبارک سے ادا ہوئیں اور اس کے بعد آنسووں کا تار بندھ گیا۔"      ( ١٩٢٣ء، سیرۃ النبی، ٤٧٤:٣ )
٤ - آنسووں میں نہانا
زار زار رونا'وہ بے اختیار ہو کر ایسی روئی کہ آنسووں میں نہا گئی۔"      ( ١٩٠٤ء، سوانح عمری ملکہ وکٹوریا، ١٦١ )
٥ - آنسو گرانا
'دل چاہتا تھا کہ وہ ایک دفعہ شوہر کی قبر پر بیوگی کے آنسو گرائے۔"      ( ١٩١٥ء، گرداب حیات، ٣٠ )
٦ - آنسو گرنا
 اس کی حسرت تھی کہ جتنے آنکھ سے آنسو گریں جذب صادق کے اثر سے سب در شبنم بنیں      ( ١٩٢٩ء، مطلع انوار، ٥٥ )
٧ - آنسو نکل آنا
آنکھوں میں آنسو آ جانا، آنسو بھر آنا۔ ہمشکل نبی کھا کے جو برچھی کا پھل آئے دل لاکھ سنبھالا مگر آنسو نکل آئے      ( ١٩٤٢ء، مرثیہ منظور رائے پوری، ١٢ )
٨ - آنسو نکل پڑنا
یکایک (بے حد خوشی یا غم سے) آنکھوں میں آنسو آ جانا۔'خدا جانتا ہے میرے تو آنسو نکل پڑے"      ( ١٩٠٨ء، صبح زندگی، ١٢٨ )
٩ - آنسو نکلنا
رونا، آنسو بہنا، آنسو ٹپکنا۔ فوج اعدا سے وہ غازی صفت جو نکلے صف مژگاں کو الٹتے ہوے آنسو نکلے      ( ١٩٧٥ء، مرثیہ ہلال نقوی، ٩ )
١٠ - آنسو چلنا
'بے اختیار آنکھوں سے آنسو چلنے لگے۔"      ( ١٩٢٤ء، نوراللغات، ١٤٨:١ )
١١ - آنسو خشک ہونا
رونا نہ آنا، انتہائی رنج و غم یا صدمے میں بھی ڈر یا حیرت وغیرہ سے آنسو نہ نکلنا۔ ہوے خشک کم بخت شبنم کے آنسو نہ کچھ اوس اس نے بھی گلچیں پہ ڈالی      ( ١٩١٨ء، فردوس تخیل، ١٧٨ )
١٢ - آنسو دینا
[ تلائی  ]  شمع کی پگھلی ہوئی چربی کا بوند بوند ہو کر گرنا۔ منظور روح کو نہیں افشائے راز عشق آنسو ہماری شمع لحد کیا مجال دے      ( ١٨٥٧ء، سحر (امان علی)، ریاض سحر، ١٠٢ )
١٣ - آنسو ڈبڈبانا
'لڑکی کے آنسو ڈبڈبا آئے۔"      ( ١٩٤٥ء، الف لیلہ و لیلہ، ٤٣:٦ )
١٤ - آنسو ڈھلنا
لگاتار آنسو بہنا۔ درے جو کھائے چار قدم بھی نہ چل سکے منکا ڈھلا پہ خوف سے آنسو نہ ڈھل سکے      ( ١٩٦٤ء، مرثیہ فیض بھرتپوری، ٢١ )
١٥ - آنسو سوکھ جانا
 شدت غم کا تقاضا تھا کہ رو اے گلرو ظلم کے ڈر سے مگر سوکھ گئے تھے آنسو      ( ١٩١٢ء، شمیم، مرثیہ، ٩ )
١٦ - آنسو بہانا
رونا'سدا نام رہے اللہ کا، دیکھ لو سب کچھ فنا ہو گیا اور ٹوٹی پھوٹی دیواریں کھڑی آنسو بہا رہی ہیں۔"      ( ١٩١٧ء، رہنمائے سیر دہلی، حسن نظامی، ٢٤ )
١٧ - آنسو بہنا
آنسو جاری ہونا۔'حادثے کی خبر سنتے ہی گھر بھر کے آنسو بہنے لگے۔"      ( ١٩٢٤ء، نوراللغات، ١٤٧:١ )
١٨ - آنسو بھر آنا
آبدیدہ ہونا، ایسا محسوس ہونا کہ اب روئے۔ بھر آئے پھول کے آنسو پیام شبنم سے کلی کا ننھا سا دل خون ہو گیا غم سے      ( ١٩٠٨ء، بانگ درا، ١١٧ )
١٩ - آنسو بھر بھر کے رونا
زار و قطار گریہ کرنا، پھوٹ پھوٹ کے رونا۔ کیا کیا نہ جدا دوست ہوئے پل کے جھپکتے بھر بھر کے میں آنسو غم احباب میں رویا      ( ١٧٨٤ء، میر حسن، دیوان، ٣٢ )
٢٠ - آنسو بھر لانا
آبدیدہ ہو جانا، رونے کے قریب ہونا۔'جب لکھنو کا ذکر آتا تھا تو ٹھنڈی سانس بھرتے تھے اور آنکھوں میں آنسو بھر لاتے تھے۔"      ( ١٩٠٠ء، امیر، مکاتیب امیر، ١٧ )
٢١ - آنسو ابلنا
دل بھر آنے پر یکایک آنسو نکل پڑنا، بے اختیار رو پڑنا۔'لاچی کی آنکھوں میں آنسو ابل پڑے۔"      ( ١٩٦٢ء، ایک عورت ہزار دیوانے، ٤٩ )
٢٢ - آنسو امڈنا | امنڈنا
کثرت سے آنسو بہنا۔ تھرا کے بس کھڑے کے یو نہیں رہ گئے کھڑے منہ سے نہ کچھ کہا مگر آنسو امڈ پڑے      ( ١٩٧٢ء، مرثیہ یاوراعظمی، ١١ )
٢٣ - آنسو آنا
'کلیجہ امڈ کر آنسووں کا پلکوں پر آ جانا، آنکھوں سے آنسووں کا گرنا، آبدیدہ ہونا۔"'خدا جانے کیا بات یاد آئی کہ ان کی آنکھوں سے آنسو آنے لگے۔"      ( ١٩٢٤ء، نوراللغات، ١٤٧:١ )
٢٤ - آنسو تھمنا
گریہ موقوف ہو جانا۔ صبرو شکیب کرنے لگے سینہ میں خروش آنسو تھمے، گئے ہوے پھر آئے سب کے ہوش      ( ١٨٩٧ء، دیوان ڈاکٹر مائل، ٣٠٦ )
١ - آنسووں سے پیاس نہیں بجھتی
رونے دھونے سے کام نہیں چلتا، اظہار غم سے دل کی بھڑاس نہیں نکلتی۔'وہ صحبتیں اور تقریریں جو یاد کرتے ہو . مجھ سے خط پر خط لکھواتے ہو، آنسووں پیاس نہیں بجھتی، یہ تحریر تلافی اس تقریر کی نہیں کر سکتی۔"      ( ١٨٥٩ء، خطوط غالب، ٢٧٩ )
٢ - آنسو ایک نہیں کلیجہ ٹوک ٹوک
مکاری کی ہائے ہائے ہے، دردمندی نہیں محض بناوٹ ہے۔ (امیراللغات، ١٩٢:١)
  • Tear
  • tears