سمجھنا

( سَمَجْھنا )
{ سَمَجھ + نا }
( پراکرت )

تفصیلات


سمبَجھ  سَمَجْھنا

پراکرت زبان کے لفظ 'سم بجھ' سے 'سمجھنا' بنا۔ اردو میں پراکرت سے ماخوذ ہے اور عربی رسم الخط کے ساتھ بطور فعل لازم اور گا ہے بطور فعل متعدی استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - جاننا، واقف ہونا، آگاہ ہونا۔
 تمہیں جانا تمہیں سمجھا تمہیں دیکھا تمہیں پایا اگر پایا اگر دیکھا سمجھا اگر جانا    ( ١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٤١ )
٢ - مفہوم ذہن میں آنا، مطلب ذہن نشین ہونا، کسی بات کی تہہ تک پہنچنا۔
 کچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا مجھے جنت سے نکالا ہوا انسان سمجھا    ( ١٩٢٤ء، بانگ درا، ٢٢١ )
٣ - بات ماننا، نصیحت قبول کرنا، قابو میں آنا، کہنے میں آنا۔
 کچھ تو تھی بات کہ ناصح کی نہ مانی کچھ بات کچھ تو سمجھا جو نہ کچھ یہ دل ناداں سمجھا      ( ١٨٧٨ء، گلزار داغ، ٢٢ )
٤ - محتاط ہونا۔
 عاشق کی بھی کچھ برہمی دل کا رہے دھیان مثاطہ ذرا کیجیو تو شانہ سمجھ کر      ( ١٨٩٩ء، دیوان ظہیر، ٨٠:١ )
فعل متعدی
١ - خیال کرنا، گمان کرنا۔
"کچھ ایسا کر دو کہ وہ اپنے گھر کو گھر سمجھے، نہیں تو میں زہر کھا کر مر جاؤں گی۔"      ( ١٩١٠ء، راحت زمانی کی مزیدار کہانی، ٦٦ )
٢ - بدلہ لینا، انتقام لینا، دامن گیر ہونا، حساب چکانا۔
"بڑھیا نے کبھی حضرت عمر کو دیکھا نہ تھا اس نے یہ سنا کہ امیرالمومنین مدینہ ہی میں ہیں تو بولی اللہ ان کو سمجھے!۔"      ( ١٩٨٥ء، روشنی، ٧٨ )
٣ - باہم طے کر لینا، فیصلہ کرنا، تصفیہ کرنا، قفیہ چکانا۔
"تو آپ اور وہ باہم سمجھ لیجئیے۔"      ( ١٩١٤ء، شبلی، مقالات شبلی، ٤:٥ )
٤ - کسی چیز کی حقیقیت معلوم کرنا، ادراک کرنا، جاننا۔
"قرآن کے الفاظ پڑھنے اور دہرانے میں جو لذت ہے اور ثواب ہے وہ تو ہے ہی لیکن بات جب پوری ہوتی ہے کہ ہم اسے سمجھ کر پڑھیں۔"      ( ١٩٨٥ء، روشنی، ٢٤٥ )
٥ - باز پرس کرنا، سزا دینا۔
 مستانہ خرامی کا انہیں شوق ہے اتنا محشر کو سمجھتے نہیں رفتار کے آگے      ( ١٨٩٧ء، کلیات راقم، ١٨٧ )
٦ - قرار دینا۔
"یہ شعر سن کے انہوں نے دل میں کہا اچھا سمجھا جائے گا۔"      ( ١٩٢٦ء، شرر، مضامین شرر، ١٢٨:٣ )
٧ - حساب کرنا۔
"روپیہ کھچڑی کا تو لو وہاں آکر سمجھ لینا۔"      ( ١٨٩٩ء، امراؤ جان ادا، ٣٢١ )