سمائی[1]

( سَمائی[1] )
{ سَما + ای }
( پراکرت )

تفصیلات


پراکرت زبان سے مصدر 'سمانا' کا حاصل مصدر ہے اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٧١٨ء کو "دیوان آبرو" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - گنجائش، کھیت۔
"اردو میں ان سب زبانوں کے الفاظ کی سمائی قیاس اور انداز کہیں بڑھ کر ہے۔"      ( ١٩٨٥ء، کتب لغت کا تحقیقی و لسانی جائزہ، ١٠:٢ )
٢ - وسعت، پھیلاؤ۔
"ذرہ آسا اور قطرہ تمثال ہستی میں صحرا کی وسعت اور دریا کی سی سمائی پیدا کر دیتا ہے۔"      ( ١٩٨٧ء، غالب فن اور شخصیت، ١٤١ )
٣ - حوصلہ، طاقت، ظرف۔
"اس کے فکرویقین کے لحاظ سے ہوتی ہے۔"    ( ١٩٨٨ء، نگار، کراچی، نومبر، ٢٤ )
٤ - تحمل، برداشت۔
"پہلے جو بات ناگوار خاطر ہوتی تھی اب اس کی سمائی ہونے لگی۔"    ( ١٩٢٠ء، لخت جگر، ٧٥:١ )
  • وَسْعَت
  • بَرداشْت
  • the act of containing or holding (anything);  room
  • space
  • capacity