ظرف

( ظَرْف )
{ ظَرْف }
( عربی )

تفصیلات


ظرف  ظَرْف

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٨٦٨ء کو "اصول السیاق" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع   : ظُرُوف [ظُرُوف]
١ - برتن۔
"کبھی جزو بول کر کلُ اور کلُ بول کر جزو یا ظرف کی جگہ مظروف اور مظروف کی جگہ ظرف مراد لیتے ہیں۔"      ( ١٩٨٨ء، نگار، کراچی، اگست، ٢٧ )
٢ - سمائی، گنجائش۔
 خم میں جو آنہ سکے دل میں سما جاتی ہے ظرف دیکھے کوئی اس چھوٹے سے پیمانے کا    ( ١٩٢٧ء، شاد عظیم آبادی میخانہ الہام، ٤٨ )
٣ - حوصلہ، ہمت؛ استعداد۔
"ضبطِ غم کا حوصلہ یا ظرف شاید اسی کا نام صبرِ جمیل ہے۔"    ( ١٩٨٦ء، فیضان فیض، ٥٦ )
٤ - [ تصوف ]  ایک موجود مستقل کے دوسری موجود مستقل یا غیر مستقل میں در آنا جیسے کوزۂ آب اور جوہرو عرض۔ (مصباح التعرف)
٥ - ظرافت، حاضر جوابی، ہنر مندی۔
 یہ لطافت یہ ظرف یہ انداز عشوہ اور غمزہ اور ادا اور ناز      ( ١٨٦١ء، کلیاتِ اختر، ٩٧٥ )
٦ - [ قواعد ]  وہ اسم جو جگہ یا وقت کے معنی دیتا ہو، وقت کے معنی دینے والے کو ظرفِ زمان (جیسے شام، صبح، رات، دن) اور جگہ کے معنی پر دلالت کرنے والے کو ظرفِ مکان (جیسے گلی، کوچہ، شہر، گھر)
"چند لفظ ہیں کہ مختلف اسموں کے ساتھ مل کر ظرف کا مطلب پورا کر دیتے ہیں۔"      ( ١٨٨٩ء، جامع القواعد، محمد حسین آزاد، ٥٣ )
٧ - [ نباتیات ]  پھول کے ڈنٹھل کا اوپری سِرا جس میں پھول لگتا ہے۔
"ڈنٹھل کے ایک سرے کو جس میں پھول لگتا ہے ظرف کہتے ہیں۔"      ( ١٩١٠ء، مبادی سائنس (ترجمہ)، ١٥٠ )
  • Ingenuity
  • skill
  • cleverness;  beauty
  • excellence;  elegance (of manners)
  • politeness;  capacity
  • capability;  a receptacle
  • vessel
  • vase;  (in Gram) an adverb (of time or place)