دق

( دِق )
{ دِق }
( عربی )

تفصیلات


دقق  دِق

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مجرد کے باب از مضاعف سے مصدر ہے اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ملتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٩٧ء کو ہاشمی کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - تنگ، عاجز، پریشان و حیران؛ گھٹن کی سی کیفیت یا ذہنی اذیت و تکلیف میں مبتلا، آزردہ۔
"میں نے تعطیلات گرما میں موصوف کو غزلوں پر نظر ثانی کے لیے دق کیا۔"      ( ١٩٥٨ء، فکر جمیل (پیش لفظ)، ٦ )
٢ - ناراض، خفا۔
"ہم دونوں . کا لڑنا جھگڑنا، اماں جان کا دق ہونا . غرض ایک جھکڑ بندھ گیا۔"      ( ١٩١٠ء، گرداب حیات، ٤٣ )
اسم معرفہ ( مذکر - واحد )
١ - ایک مرض جس میں ہر وقت بخار رہتا ہے، کھانسی اٹھتی ہے، طبیعت نڈھال رہتی ہے اور اس کے جراثیم رفتہ رفتہ پھیھڑوں کو بے کار کر دیتے ہیں، تپ کہنہ، تپ محرقہ (Tuberclosis)۔
"دودھ میں دق کے جراثیم بہت جلد پرورش پاتے ہیں۔"      ( ١٩٨٥ء، روشنی، ١٥٠ )