قلاش

( قَلّاش )
{ قَل + لاش }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے صیغہ اسم مبالغہ ہے۔ عربی سے اردو میں حقیقی معنوں اور ساخت کے ساتھ داخل ہوا۔ اور بطور اسم صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
جمع غیر ندائی   : قَلاّشوں [قَل + لا + شوں (واؤ مجہول)]
١ - بھوکا، ننگا، کنگال، مفلس۔
"غازی اور بالم تو پہلے ہی قلاش ہے۔"      ( ١٩٨٤ء، کیمیا گر، ١٤٤ )
٢ - لچّا، لفنگا، بے غیرت۔
"چند قلاش عیاش خلوت میں بار پانے لگے۔"      ( ١٨٦٢ء، سبستان سرور، ١٦:٣ )
٣ - [ تصوف ]  اہل صفا اور فنا کو کہتے ہیں جو لذت نفسانی اور شہوانی سے خلاص پائے اور بعض کہتے ہیں کہ قلاش اس کو کہتے ہیں جو تجلی سے کسی وقت سیر نہ ہو اور ہمیشہ بحر و حدت میں مسفرق رہے اور نعرہ ہل من مزید مارے۔ (مصباح التعرف، 199)
  • shrewd
  • crafty;  malicious;  poor
  • wretched
  • friendless;  addicted to drinking