طراوت

( طَراوَت )
{ طَرا + وَت }
( عربی )

تفصیلات


طرا  طَراوَت

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بھی اسم مستعمل ہے۔ ١٦١١ء کو "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : طَراوَتیں [طَرا + وَتیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : طَراوَتوں [طَرا + وَتوں (و مجہول)]
١ - (نباتات کی) تروتازگی، شادابی، سرسبزی۔
 ہوا جو تیری بہاروں پہ شعر لے لے کر طراوت چمن و خوبی ہوا آیا      ( ١٩٧١ء، لا حاصل، ٩٣ )
٢ - ٹھنڈک، خنکی۔
"آبشار ہو، سمندر ہو، دریا ہو، تو میرے دل کو سکون ہو جاتا ہے اور آنکھوں میں طراوت آجاتی ہے۔"      ( ١٩٨٦ء، دریا کے سنگ، ٨٣ )
٣ - تری، نمی، رطوبت۔
"جیسے وہ کچی مٹی سے ابھی ابھی ڈھالی گئی ہو وہی گدراہٹ وہی جاذبیت وہی طراوت۔"      ( ١٩٨٥ء، منٹو نوری نہ ناری، ٧١ )
٤ - [ مجازا ]  بہار، رونق، آب داری، خوبی، شگفتگی۔
 لطافت سے ہیں خالی تیرے کملائے ہوئے بوسے طراوت سے ہیں خالی تیرے مرجھائے ہوئے بوسے      ( ١٩٤١ء، صبح بہار، ١٢١ )
٥ - [ تصوف ]  ظہور انوارِ الٰہی۔ (مصباح التعرف)
  • freshness
  • verdure;  moisture
  • humidity
  • dampness