گجرا

( گَجْرا )
{ گَج + را }
( پراکرت )

تفصیلات


اصلاً پراکرت زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں پراکرت سے ماخوذ ہے اصل معنی اور اصل حالت میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٣٦ء کو "ریاض البحر" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : گَجْرے [گَج + رے]
جمع   : گَجْرے [گَج + رے]
جمع غیر ندائی   : گَجْروں [گَج + روں (و مجہول)]
١ - قریب قریب گتھا ہوا پھولوں کا ہار۔
 وہ پھولوں کے گجرے جو تم کل شام پرو کر لائی تھیں وہ کلیاں جن سے تم نے یہ رنگیں سیجیں مہکائی تھیں      ( ١٩٧٤ء، لوح دل، ٣٩ )
٢ - پھولوں کا گہنا جو عورتیں کلائیوں میں پہنتی ہیں، پھولوں کا کنگن۔
 پس گئی پھولوں کے گجرے سے کلائی ان کی نبض کی طرح تڑپتی ہے نزاکت کیسی      ( ١٨٨٨ء، صنم خانۂ عشق، ٢٦٨ )
٣ - موتی اور سونے سے بنایا جانے والا ہاتھوں یا گلے کا زیور۔
"گجرا . ہاتھوں کا زیور دستوانہ کی طرح ہے جو موتی اور سونے سے بنایا جاتا ہے۔"      ( ١٩٣٩ء، آئین اکبری (ترجمہ)، ٢٨٤:٢ )
٤ - ایک قسم کا ریشمی کپڑا، مشروع، مشروع کی لہریے دار دھاریاں۔ (ماخوذ: جامع اللغات، فرہنگ آصفیہ)
٥ - [ باجاسازی ]  طبلے کی طبلق یا گردے کا سر بند، ڈھول اور اسی قسم کے باجوں کے منہ کا مندھا ہوا چمڑا۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 142:4)
  • A carrot;  leaf of a carrot;  a wrist-ornament;  a bracelet;  a necklace (of gold);  a kind of silk cloth