جفاکش

( جَفاکَش )
{ جَفا + کَش }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان میں اسم 'جفا' کے ساتھ مصدر 'کشیدن' سے مشتق صیغۂ امر 'کش' بطور لاحقۂ فاعلی لگنے سے مرکب 'جفاکش' بنا۔ اردو میں بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ ١٨٧٠ء میں "الماس درخشاں" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - محنتی، مشقت کرنے والا۔
"جو علم نافع کا جامع ہے وہ . شائستہ ہو گا، جفاکش ہو گا ضابط اوقات ہو گا۔"      ( ١٩٠٦ء، الحقوق و الفرائض، ١٤٣:٣ )
٢ - صابر، برداشت کرنے والا۔
"لیکن بعد میں ضرور خیال کریں گی کہ ہم کتنے جری اور جفاکش ہیں ابتلا و مصیبت میں بھی بشاش چلے جا رہے ہیں۔"      ( ١٩٤٠ء، مضامین رشید، ٢٤٦ )