قوام

( قِوام )
{ قِوام }
( عربی )

تفصیلات


قءم  قِوام

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے اردو میں اصل معنی و ساخت کے ساتھ داخل ہوا اور اسم کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٥٤ء کو "گنج شریف" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : قِواموں [قِوا + موں (و مجہول)]
١ - وہ شے جس کے سبب کسی شے کا قیام ہو، خمیر، مادہ۔
 نہ دے جو حکم کسی کو بغیر استمزاج وہی جو قیمِ اقدار ہے قوام قیم      ( ١٩٦٦ء، منحمنا، ٢٧ )
٢ - قیام، ٹھہراؤ، بقا۔
"معاشرے کی تنظیم دوام، نسل آدم کی بِنائے قوام کے لیے پہلا حکم پروردگار بے کنار و بے حد سے ہوا۔"      ( ١٩٦٩ء، سائنس اور فلسفے کی تحقیق، ١٩ )
٣ - تمباکو کاست جو پان میں کھانے کے لیے مشک عنبر اور دوسرے خوشبودار مسالے ملا کر تیار کیا جاتا ہے۔
"چھوٹی سی ڈبیا سے ماچس کی تیلی کی مدد سے تھوڑا سا قوام نکالا۔"      ( ١٩٥٥ء، منٹو، سرکنڈوں کے پیچھے، ٩٠ )
٤ - پانی میں گھول کر پکایا جانے والا گڑ یا شکر جس میں تار اٹھنے لگے، شیرہ، چاشنی۔
"خوشامدیوں میں گھرا ہوا انسان شیرے کے قوام میں پھنسی ہوئی مکھی کی طرح بے بس اور معذور ہوتا ہے۔"      ( ١٩٨٧ء، شہاب نامہ، ٦٥١ )
٥ - کسی چیز کی ساخت، پائیداری، قدو قامت، استواری۔
"نظام ترتیبی کا قوام کچھ . بگڑا ہوتا ہے۔"      ( ١٩٨٥ء، مولانا ظفر علی خاں بحیثیت صحافی، ٩٣ )
٦ - مزاج، امتزاج، ڈھانچہ، ستون، بنیاد۔
"ان کے دین و ملت کا قوام کتنا بگڑ گیا تھا۔"      ( ١٩٣٢ء، سیرۃ النبیۖ، ٢٣٧:٤ )
٧ - گاڑھا پن، گاڑھا ہونا، مادے کی نیم مائع صورت۔
"تاکہ اس کا قوام قائم رہے دوات ڈھکنے دار ہونا بھی ضروری ہے۔"      ( ١٩٦٣ء، صیحیفہ خوشنویساں، ٢٠٧ )
  • چاشْنِی
  • شِیْرَہ
  • that on which anything rests
  • or in which it consists;  essence
  • substance;  competency;  syrup;  materials
  • ingredients