گردان

( گَرْدان )
{ گَر + دان }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے۔ فارسی سے اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم اور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٧١٨ء کو "دیوان آبرو" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع   : گَرْدانیں [گَر + دا + نیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : گَرْدانوں [گَر + دا + نوں (و مجہول)]
١ - ہر طرف اڑ کر پھر اپنے گھر لوٹ کر آنے اور دوسری جگہ نہ بیٹھنے والا، دوسروں کو بھی ساتھ لانے والا (کبوتر کے لیے مستعمل)۔
 جاؤں میں یاں سے کہیں آؤں گا پھر کر میں یہیں میں ترے گھر کا کبوتر بن گیا گردان ہوں      ( ١٨٥٦ء، کلیات ظفر، ٧٩:٤ )
٢ - گول، مدور۔
"پھند نے دار گردن ٹوپیاں کلا بتونی کام کی پہنے ہوئے . ہانکتے جاتے ہیں۔"      ( ١٨٨٥ء، بزم آخر، ٩٦ )
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : گَرْدانیں [گَر + دا + نیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : گَرْدانوں [گَر + دا + نوں (و مجہول)]
١ - چکر، پھیری، دور، پھراؤ۔ (علمی اردو لغت، فرہنگ آصفیہ)
٢ - کسی عمل کی تکرار، ورد، امادہ۔
"حکیم صاحب . ہوالشافی کے بعد جب نسخہ لکھیں گے تو وہی آمیختہ و ریختہ کی گردان کی جائے گی۔"      ( ١٩٢٩ء، تاریخ نثر اردو، ٢٧:١ )
٣ - [ صرف ]  فعل کے صیغوں مثلاً ماضی، مضارع، حال اور مستقبل وغیرہ کی ترتیب۔
"بہاری زبان میں فعل کی گردان کا پیچیدہ نظام منڈا کے اثر کا نتیجہ ہے۔"      ( ١٩٥٦ء، زبان اور علم زبان، ٢٢٨ )
٤ - دہرانا، بار بار پڑھنا، رٹ، اموختہ کی تلاوت، قرآن شریف کا دور۔
"حافظ حسن جان سے کلام مجید کا گردان کر مکتب کا مرحلہ طے کر لیا۔"      ( ١٩٤٧ء، فرحت، مضامین، ١٩١:٣ )
٥ - [ نجاری - مذکر ]  دروازے کے پٹوں کو اندر سے بلند رکھنے والی آڑ جو ایک چوکور یا گول مضبوط لکڑی ہوتی ہے، اڑ ڈنڈا، سر کونڈا۔ (اصطلاحاتِ، پیشہ وراں، 44:1)
  • Trained