اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - دوری حرکت، چکر، دور، پھیر، گھماؤ۔
"وہ نقطہ ہے کے جس چاروں طرف آفاق کی گردش ہوتی ہے۔"
( ١٩٨٥ء، اکائی، ٦٩ )
٢ - انقلاب، زمانے کا تغیر، حالات کی تبدیلی۔
گھرا ہوا ہوں زمانے کی گردشوں میں مگر کوئی تو راستہ آشفتہ سر نکالے گا
( ١٩٨٨ء، مرج البحرین، ٣٤ )
٣ - قسمت کی برگشتگی، بدنصیبی، بدبختی، ادبار۔
گردش دکھا رہا ہے مجھے چرخ چنبری کرتا ہے بات کھوٹی مری ہوا گر کھری
( ١٨٨٦ء، کلیات اردو، ترکی، ٢٩ )
٤ - مصیبت، آفت، ادبار۔
"مثلاً ہم نے سوال کیا کہ ہم پر گردش کیوں آرہی ہے۔"
( ١٩٧٤ء، نفسیات و مابعدالنفسیات، ٦٢ )
٥ - کسی عمارت کے اطراف کا مستف رستہ، غلام گردش۔
"پہلو کی گردش میں کتابوں کی الماریاں، لکھنے کی میزیں ہیں۔"
( ١٩٣٦ء، مضامین فلک پیما، ٣٦٨ )
٦ - [ معاشیات ] لین دین کے لیے، بازار میں زر یا روپے کا چلن۔
"ہندوستان میں موجودہ روپیہ اس روپے سے بہت زیادہ ہے جو گردش میں رہتا ہے۔"
( ١٩٣١ء، سکہ اور شرح تبادلہ، ٤٧ )
١ - گردش میں آنا
مصیبت میں پھنسنا، چکر میں آنا، ادبار میں پھنسنا۔ جام ہی کے ساتھ گردش میں مقدر آ گیا آنکھ ساقی سے ملائی تھی کہ چکر آ گیا
( ١٩٥٠ء، صفی، دیوان (مقدمہ)، ٢١۔ )
٢ - گردش میں رہنا
پریشانی میں گرفتار ہونا، مصیبت یا ادبار میں مبتلا رہنا۔"غرض اس شوق کی وجہ سے یہ ہمیشہ گردش ہی میں رہے"
( ١٩٤٧ء، فرحت، مضامین، ١٠٠:٤ )
٣ - گردش میں ہونا
گردش میں آنا، مصیبت میں پڑنا۔ آسماں کے ہاتھ سے کیا اک جہاں گردش میں ہے اب یہی رہتا ہمیشہ آسماں گردش میں ہے
( ١٨٥٦ء، کلیات ظفر، ١٧٤:٤ )