گردش

( گَرْدِش )
{ گَر + دِش }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا اسم ہے۔ فارسی سے اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٧٢ء کو "دیوان عبداللہ قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : گَرْدِشیں [گَر + دِشیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : گَرْدِشوں [گَر + دِشوں (و مجہول)]
١ - دوری حرکت، چکر، دور، پھیر، گھماؤ۔
"وہ نقطہ ہے کے جس چاروں طرف آفاق کی گردش ہوتی ہے۔"      ( ١٩٨٥ء، اکائی، ٦٩ )
٢ - انقلاب، زمانے کا تغیر، حالات کی تبدیلی۔
 گھرا ہوا ہوں زمانے کی گردشوں میں مگر کوئی تو راستہ آشفتہ سر نکالے گا      ( ١٩٨٨ء، مرج البحرین، ٣٤ )
٣ - قسمت کی برگشتگی، بدنصیبی، بدبختی، ادبار۔
 گردش دکھا رہا ہے مجھے چرخ چنبری کرتا ہے بات کھوٹی مری ہوا گر کھری      ( ١٨٨٦ء، کلیات اردو، ترکی، ٢٩ )
٤ - مصیبت، آفت، ادبار۔
"مثلاً ہم نے سوال کیا کہ ہم پر گردش کیوں آرہی ہے۔"      ( ١٩٧٤ء، نفسیات و مابعدالنفسیات، ٦٢ )
٥ - کسی عمارت کے اطراف کا مستف رستہ، غلام گردش۔
"پہلو کی گردش میں کتابوں کی الماریاں، لکھنے کی میزیں ہیں۔"      ( ١٩٣٦ء، مضامین فلک پیما، ٣٦٨ )
٦ - [ معاشیات ]  لین دین کے لیے، بازار میں زر یا روپے کا چلن۔
"ہندوستان میں موجودہ روپیہ اس روپے سے بہت زیادہ ہے جو گردش میں رہتا ہے۔"      ( ١٩٣١ء، سکہ اور شرح تبادلہ، ٤٧ )
١ - گردش میں آنا
مصیبت میں پھنسنا، چکر میں آنا، ادبار میں پھنسنا۔ جام ہی کے ساتھ گردش میں مقدر آ گیا آنکھ ساقی سے ملائی تھی کہ چکر آ گیا      ( ١٩٥٠ء، صفی، دیوان (مقدمہ)، ٢١۔ )
٢ - گردش میں رہنا
پریشانی میں گرفتار ہونا، مصیبت یا ادبار میں مبتلا رہنا۔"غرض اس شوق کی وجہ سے یہ ہمیشہ گردش ہی میں رہے"      ( ١٩٤٧ء، فرحت، مضامین، ١٠٠:٤ )
٣ - گردش میں ہونا
گردش میں آنا، مصیبت میں پڑنا۔ آسماں کے ہاتھ سے کیا اک جہاں گردش میں ہے اب یہی رہتا ہمیشہ آسماں گردش میں ہے      ( ١٨٥٦ء، کلیات ظفر، ١٧٤:٤ )
  • Going round
  • turning round
  • revolution;  circulation;  roll;  course;  period;  turn
  • change;  vicissitude;  reversion;  adverse fortune
  • adversity;  wandering about
  • vagrancy.