جلباب

( جِلْباب )
{ جِل + باب }
( عربی )

تفصیلات


اصلاً عربی زبان کا لفظ ہے۔ اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٧٨٦ء میں "دیوان میر حسن" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - چادر، برقع، پردے کا اوٹ۔
"جلباب کے معنی میں اگرچہ متاخرین نے بہت سے اقوال نقل کیے ہیں لیکن محقق یہ ہے کہ جلباب ایک قسم کا برقع یا چادر تھی۔"      ( ١٩٠٤ء، مقالات شبلی، ١١٨:١ )
٢ - لمبی نقاب۔
 ہزاروں گھر ہوے ظالم رجل کے ہاتھ خراب فتا کی سیکڑوں چہروں پہ پڑ گئی جلباب      ( ١٩٢٥ء، ریاض امجد، ٥٧ )
٣ - ایک ڈھیلا ڈھالا چوغا جو صبح اٹھ کر نہانے کے بعد یا گھر پر غیر رسمی طور پر پہنا جاتا ہے۔
"سنگار میز سے آویزاں ایک جلباب (Dresing gown) ہے۔"      ( ١٩٣٧ء، طب قانونی، ٥٩٤ )
٤ - زنانہ چادر (چادر نماز)، یہ ایک قسم کا ریشمی (سوتی) لباس ہے جو آستین دار اور بغیر استین بھی، ٹخنوں تک لمبا ہوتا ہے، بچوں کی اوپر سے پہننے والی فراک؛ فوجی سواروں کی جیکٹ جس پر سمور کا حاشیہ لگا ہوتا ہے۔ (اسٹین گاس)