جلال

( جَلال )
{ جَلال }
( عربی )

تفصیلات


جلل  جَلال

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٥٨٢ء میں "کلمۃ الحقائق" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - عظمت، بزرگی، بڑائی؛ (خدا کی) صفت قہاری۔
 گر سوے فلک ہم آنکھ اٹھائیں ہر سو اس کا جلال پائیں      ( ١٩٢٧ء، تنظیم الحیات، ٢٦ )
٢ - شان و شوکت۔
 میں جوئے نغمہ بار تھی، میں صوت آبشار تھی جمال سبزہ زار تھی، جلال کو ہسار تھی      ( ١٩٤٨ء، تارپیراہن، ١٣٨ )
٣ - رعب داب، وجاہت۔
 صورت سے عیاں جلال شاہی چہرے پہ فروغ صبح گاہی      ( ١٩٠٤ء، شبلی، کلیات، ٨ )
٤ - قہر۔
"ایک شاعر نے جلال اور غیظ کو ان الفاظ میں ادا کیا ہے۔"      ( ١٩٢٤ء، شبلی، مقالات، ٩:٢ )
٥ - تیزی، سختی، تندی۔
"جمال اور جلال کی رگڑ سے روح پیدا ہوئی۔"      ( ١٩٠٤ء، تذکرۃ الاولیا، ٦٠٣ )
١ - جلال آنا
غصہ آنا، طیش آنا۔"خاک کی یہ بات سن کر قدرت کو جلال آتا ہے"      ( ١٩٢٧ء، گل کائنات بیتی، ٥٥۔ )
٢ - جلال میں آنا
غضبناک ہونا، غصے میں بھر جانا۔"یہ سنتے ہی سید صاحب جلال میں آ گئے"      ( ١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ٢٢٥۔ )