جلانا

( جَلانا )
{ جَلا + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


جولنیین  جَلْنا  جَلانا

سنسکرت سے ماخوذ اردو مصدر لازم 'جلنا' سے اردو میں قواعد کے تحت تعدیہ بنایا گیا ہے۔ یعنی علامت مصدر 'نا' سے پہلے 'الف' کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اردو میں بطور مصدر مستعمل ملتا ہے۔ ١٦٧٢ء میں "کلیات شاہی" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل متعدی
١ - آگ لگانا، سوختہ کرنا۔
 لاؤں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے بجلیاں بیتاب ہوں جن کو جلانے کے لیے      ( ١٩٢٤ء، بانگ درا، ١٠٢ )
٢ - روشن کرنا (چراغ وغیرہ)
"راجا نے رانی چاندی سے چراغ جلانے کو کہا۔"      ( حکایات پنجاب، ٤٥:١ )
٣ - [ مجازا ]  غصہ دلانا، طیش میں لانا، برانگیختہ کرنا۔
"اے حضور میں تو اس کل موہی کے جلانے کو کہ کہہ رہی تھی۔"      ( ١٩٢٢ء، انارکلی، ٣١ )
٤ - [ مجازا ]  حسد یا رشک میں مبتلا کرنا۔
"میں نے ان کو جلانے کے لیے کہا۔"      ( ١٩٤٧ء، فرحت، مضامین، ١٤٠:٤ )
٥ - [ مجازا ]  رنج پہنچانا، دق کرنا۔
 اے نوح میری آہ اکارت نہ جائے گی وہ بھی کبھی جلیں گے جو مجھ کو جلائیں گے      ( ١٩٠٤ء، سفینۂ نوح، ٢٠١ )