جگر داری

( جِگَرْ داری )
{ جِگَر + دا + ری }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان میں اسم 'جگر' کے ساتھ مصدر 'داشتن' سے مشتق صیغۂ امر 'دار' لگنے سے مرکب 'جگر دار' بنا اور پھر 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگنے سے 'جگر داری' مرکب بنا اردو میں بطور اسم کیفیت مستعمل ہے۔ ١٧٩٥ء میں "دیوان دل عظیم آبادی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - دلیری، بہادری، جرات۔
 کیا کس نے جگر داری کا دعویٰ شکیب خاطر عاشق بھلا کیا      ( ١٨٦٩ء، غالب، دیوان، ١٥٧ )