اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - کسی چیز کو پکڑنے یا تھامنے کا عمل، پکڑ۔
"یوسف کی گرفت ہلکی پڑ گئی تو وہ اس کے قریب گیا اور بہت نرمی سے بولا۔"
( ١٩٨٣ء، ساتواں چراغ، ٣١ )
٢ - پکڑنے کا انداز یا طریقہ۔
"قلم کی صحیح گرفت بھی خوشنویس کے لیے ضروری ہے۔"
( ١٩٦٣ء، صحیفہ خوشنویساں، ٢٠٤ )
٣ - پکڑ (گناہ اور خطا کے لیے)، مواخذہ۔
جھگڑے پڑے ہیں میری گرفت و نجات کے دوزخ میں اور رحمت پروردگار میں
( ١٨٩٥ء، دیوان راسخ دہلوی، ٢٠٠ )
٤ - اعتراض، حرف گیری، نکتہ چینی۔
"صدرالشریعۃ کی یہ ساری تقریر صرف لفظی گرفتوں پر مبنی ہے۔"
( ١٩٥٦ء، مناظر احسن گیلانی، عبقات (ترجمہ)، ٢٤٨ )
٥ - بازپرس، سرزنش۔
"میں اپنی طرف سے کوئی ایسی حرکت نہ کروں گا جس سے گرفت ہو۔"
( ١٩٢٢ء، گوشۂ عافیت، ٧٠:١ )
٦ - [ مجازا ] زبان کا لڑکھڑانا، لکنت۔
"اب بھی کبھی کبھی بولنے میں گرفت ہوتی ہے۔"
( ١٩٢٢ء، گوشۂ عافیت، ٧٠:١ )
٧ - [ مجازا ] ثقل سماعت، گرانی گوش، بہراپن۔
"مشام بوئے غضب سے دماغ کے کوفے میں جا گھسا اور کان کی گرفت یا کسی وجہ سے میں کاٹھ کا الو ہو گیا۔"
( ١٩١٥ء، پیاری دنیا، ١٢ )
٨ - روک ٹوک، دار و گیر، پکڑ دھکڑ۔
"بچوں کو جلدی سے چھپانے کی کوشش کی گئی کیونکہ اب قانون کی گرفت کا ڈر تھا۔"
( ١٩١٣ء، سی پارۂ دل، ٢١٢:١ )
٩ - پابندی۔
"اس وقت بھی ان لوگوں پر اس دستورالعمل کی ویسی ہی سخت گرفت قائم رہتی ہے۔"
( ١٨٨٤ء، مقدمہ تحقیق الجہاد، ١١٥ )
١٠ - قبضہ، قابو، دسترس۔
"جب انھیں یقین ہو گیا کہ حضور ان کی گرفت سے نکل گئے تو انھوں نے حضور کی گرفتاری کے لیے سو اونٹ انعام میں دینے کا اعلان کیا۔"
( ١٩٦٢ء، محسن اعظم اور محسنین، ٤٣ )
١١ - تسلط، غلبہ۔
"جب تک مسلمانوں کی سیاسی گرفت برصغیر پر مضبوط رہی اسے ظاہر نہ ہونے دیا۔"
( ١٩٧٧ء، ہندی اردو تنازع، ٤ )
١٢ - پکڑنے کی جگہ، دستہ، قبضہ، موٹھ۔
"بسم اللہ کہہ کر پتھر پر زور کیا، گرفت نہ تھی کہ اسے بلند کرتے۔"
( ١٩٠٨ء، آفتاب شجاعت، ١، ٧٨٥:٥ )
١٣ - جکڑاؤ، اتصال، پیوستگی۔
"پانی کے اجزا آپس میں اس طرح بے تکلف ہرتے پھرتے ہیں پھر یہ نہ سمجھنا کہ ان میں کچھ گرفت نہیں ہوتی۔"
( ١٨٨٩ء، مبادی العلوم، ٢٥ )
١٤ - گود، آغوش، کولی۔ (فرہنگ آصفیہ)
١٥ - [ کیمیا ] ہائیڈروجن کے ایک جوہر کی قوت ترکیبی، کسی جوہر کی قابلیت امتزاج۔
"کاربن کی الیکٹرانی ترتیب کے تحت کاربن کی گرفت (Valency) دو ہے۔"
( ١٩٨٠ء، غیر نامیاتی کیمیا، ٢١ )