ادھر

( اُدَھر )
{ اُدَھر }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے اسم جامد ہے۔ سنسکرت میں 'دَھر' کے ساتھ 'اُ' بطور لاحقہ بعید لگایا گیا ہے۔ 'دھر' یا 'تر' بمعنی 'طرف' مستعمل ہیں۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

حرف عطف
١ - دوسرے، ثانیاً، اوپر سے، اس کے علاوہ، مزید برآں، اِدھر (ایک تو) کے بالمقابل۔
 نہ کیوں بہار میں آتش مزاج ہو ہر رند اِدھر کباب میں گرمی اُدھر شراب میں آگ
٢ - ویسے ہی، اسی دم، فوراً، اِدھر (جیسے ہی، جوں ہی) کے بالمقابل۔
 یہ کہہ کے ہم نے سنایا کسی کو قصہ ہجر اِدھر شروع کیا اور ادھر تمام کیا    ( ١٩٣٦ء، شعاع مہر، ٢٣ )
٣ - جوں ہی، جیسے ہی۔
 جی تڑپ جاتا ہے، بجلی جو چمک جاتی ہے ابر اُدھر آیا اِدھر میکدے مے خوار چلے    ( ١٨٣٦ء، ریاض البحر، ٢١٨ )
اسم ظرف مکاں
١ - اس جگہ، اس مقام میں، وہاں۔
"اب کے ادھر آم بالکل نہیں ہوئے آپ فرمائیں تو میں یہاں سے کچھ بھیجوں۔"    ( ١٩٣٤ء، مکتوبات عبدالحق، ١١٣ )
٢ - اس طرف، اس سمت میں، پرے۔
"ہرن نے مکروہ آواز سن کر اپنا چرنا چھوڑ کے کان ادھر رکھا۔"    ( ١٨٠٣ء، اخلاق ہندی، ١٠٤ )
٣ - دور (متکلم یا مقرر کی جگہ کی نسبت سے)
"ہم موٹر کو ایک میل ادھر چھوڑ دیں گے۔"    ( ١٩١٤ء، شرر، دربار حرام پور،١٧:١ )
٤ - دوسری جانب، ایک جانب کے بالمقابل۔
"ادھر اہل ملک کی ایک بڑی تعداد ایسی تھی جس کا تعلق دفاتر اور دربار امرا وغیرہ سے تھا۔"    ( ١٩٣٣ء، خطبات عبدالحق، ٣ )
٥ - کسی حد سے آگے، کسی مقام سے گزر کر، اس پار۔
"فریاد خاکیوں کی آسمان پر پہنچی بلکہ عرش کے بھی ادھر گزری۔"    ( ١٨٠١ء، گلستان ہندی، ١٣٧ )
٦ - اس کی یا ان کی طرف، اس کے یا ان کے پاس۔
 نبھ سکے یہ تو عجب چیز ہے خودداری عشق ہم کھنچے ہیں تو لگاوٹ ہے ادھر سے کیا کیا    ( ١٩٤٢ء، ریاض رضواں، ١٤ )
٧ - اسے، ان کو، کسی اور شخص معین کو۔
 ادھر وہ بدگمانی ہے، ادھر یہ ناتوانی ہے نہ پوچھا جائے ہے اس سے نہ بولا جائے ہیں مجھ سے    ( ١٨٦٩ء، غالب، دیوان، ٢٦٥ )
٨ - وہیں، اسی نقطے پر، اسی منزل یا مؤقف میں (جدھر کا جواب بطور جزا) جیسے : جدھر تم جاؤ گے ادھر میں بھی جاؤں گا۔
٩ - فریق مخالف یا مدمقابل کی طرف۔
 ہر کام میں کیونکر نہ خدا میری طرف ہو میں بھی تو ادھر ہوں ہیں جدھر حیدر کرار      ( ١٨٦٦ء، گلدستہ امامت، اسیر، ٣٨ )
١٠ - پیشتر، سابق میں، پہلے۔
"تیسرا اصول تخیل کو متاثر کرنے کا وہی ہے جسے ہم ایک ہی آدھ صفحہ ادھر بیان کر چکے ہیں۔"      ( ١٩١٥ء، فلسفہ اجتماع، ٦٦ )